طالب دید پہ آنچ آئے یہ منظور نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
طالب دید پہ آنچ آئے یہ منظور نہیں
by صفی لکھنوی

طالب دید پہ آنچ آئے یہ منظور نہیں
دل میں ہے ورنہ وہ بجلی جو سر طور نہیں

دل سے نزدیک ہیں آنکھوں سے بھی کچھ دور نہیں
مگر اس پہ بھی ملاقات انہیں منظور نہیں

ہم کو پروانہ و بلبل کی رقابت سے غرض
گل میں وہ رنگ نہیں شمع میں وہ نور نہیں

خلوت دل نہ سہی کوچۂ شہہ رگ ہی سہی
پاس رہ کر نہ سہی آپ سے کچھ دور نہیں

ذوق پابند وفا کیوں رہے محروم جفا
عشق مجبور سہی حسن تو مجبور نہیں

تابش حسن نے جب ڈال دیے ہوں پردے
ممکن آنکھوں سے علاج دل رنجور نہیں

لاؤ مے خانے ہی میں کاٹ نہ دیں اتنی رات
مسجدیں ہو گئیں معمور یہ معمور نہیں

چھیڑ دے ساز انا الحق جو دوبارہ سر دار
بزم رنداں میں اب ایسا کوئی منصور نہیں

کبھی کیسے ہو صفیؔ پوچھ تو لیتا کوئی
دل دہی کا مگر اس شہر میں دستور نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse