طاق ابرو ہیں پسند طبع اک دل خواہ کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
طاق ابرو ہیں پسند طبع اک دل خواہ کے
by حیدر علی آتش

طاق ابرو ہیں پسند طبع اک دل خواہ کے
عمر ہوتی ہے بسر گنبد میں بسم اللہ کے

جاؤں کیوں کر بن بلائے اس بت دل خواہ کے
بے طلب کوئی نہیں پہونچا حضور اللہ کے

روئے نورانی کا تیرے ہو گیا ہے شک جو یار
رات بھر دوڑا ہوں کیا کیا پیچھے پیچھے ماہ کے

شام وصل آئی ادھر موجود تھی صبح فراق
کم گھڑی سے بھی پہر ہیں اس شب کوتاہ کے

داغ عشق حسن کا لقمہ نوالہ ہے کڑا
سیر دل ہیں کھانے والے اس غم جاں کاہ کے

ناتوانی سے ہے حالت غیر ہجر یار میں
دم نکل جاتا ہے اپنا ساتھ ہر اک آہ کے

عشق بت میں کوہ پر جا جا کے سر پٹکا کئے
پاؤں کو صدمے رہے پست و بلند راہ کے

سالہا عشق زنخداں نے لہو پانی کیا
مدتوں روئے ہیں جا جا کر کنارے چاہ کے

حشر تک یوں ہی رہیں گے غمزہ و انداز و ناز
عشق عالی منزلت سے حسن والا جاہ کے

جا نکلتا ہے جو مجھ سا تشنۂ دیدار حسن
ذکر یوسف کرنے لگتے ہیں کبوتر چاہ کے

منزل مقصود میں چل کر نکالوں گا انہیں
آبلوں میں یہ جو ہیں پیوست کانٹے راہ کے

اس بت بے دیں کی زلفوں کا اشارہ ہے یہی
اس بلا میں وہ پھنسیں عاشق ہوں جو اللہ کے

کب سمائی ہے نظر میں روشنیٔ آفتاب
چشم بینا رکھتے ہیں ذرے تری درگاہ کے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse