ضرور پاؤں میں اپنے حنا وہ مل کے چلے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ضرور پاؤں میں اپنے حنا وہ مل کے چلے
by ریاض خیرآبادی

ضرور پاؤں میں اپنے حنا وہ مل کے چلے
نہ پہنچے آج بھی گھر تک مرے وہ کل کے چلے

یہ دوستی ہے کہ ہے ساتھ آگ پانی کا
جو نکلی آہ تو ساتھ اشک بھی نکل کے چلے

لحد سے لائی قیامت ہے پاؤں پڑ پڑ کر
ٹھہر ٹھہر کے چلے ہم مچل مچل کے چلے

ہزاروں ٹھوکریں ہر اک قدم پر اس میں ہیں
یہ راہ عشق ہے کیوں کر کوئی سنبھل کے چلے

یہ مجھ کو وصل کی شب ہائے موت کیوں آئی
حنا لگا کے جو آئے تھے ہاتھ مل کے چلے

تمہاری راہ میں چلنے کی ہے خوشی ایسی
کہ ساتھ نقش قدم بھی اچھل اچھل کے چلے

مزا تو آئے جو لیں رند بڑھ کے ہاتھوں ہاتھ
مزا تو آئے کہیں سے جو مے ابل کے چلے

ادا سے ناز سے چلنا قیامت ان کا تھا
جو مل کے دل کو کلیجے مسل مسل کے چلے

چلے وہ شمع جلانے مزار پر کس کے
کہ ساتھ ساتھ عدو آگ ہو کے جل کے چلے

تمہارے گیسو پرپیچ نے لیا ہم کو
کہ منہ میں سانپ کے یا منہ میں ہم اجل کے چلے

اٹھا جنازہ تو بولی یہ خانہ‌ بربادی
نیا مکان ہے کپڑے نئے بدل کے چلے

ہزاروں داغ ہیں دل میں جگر میں لاکھوں زخم
ریاضؔ محفل خوباں سے پھول پھل کے چلے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse