ضد ہماری دعا سے ہوتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ضد ہماری دعا سے ہوتی ہے
by ریاض خیرآبادی

ضد ہماری دعا سے ہوتی ہے
ہم سے کیا اب خدا سے ہوتی ہے

نامہ بر جائے گا ہوا سے تیز
شرط باد صبا سے ہوتی ہے

نہ جفا سے ہے میرے دل کو قرار
نہ تسلی وفا سے ہوتی ہے

سینے سے جب اڑاتی ہے آنچل
کھل کے باد صبا سے ہوتی ہے

نزع میں ان سے پھیر لیں آنکھیں
چار آنکھ اب قضا سے ہوتی ہے

سچ تو یہ ہے کہ رنج و غم سے نجات
بادۂ جانفزا سے ہوتی ہے

چارہ گر اب دعا کو ہاتھ اٹھائیں
کہ اذیت دوا سے ہوتی ہے

دونوں پس پس کے رنگ لاتے ہیں
چھیڑ دل سے حنا سے ہوتی ہے

اے جنوں نوک جھونک کا ہے مزا
خار سے نقش پا سے ہوتی ہے

بت الجھتے ہیں روز مجھ سے ریاضؔ
روز مجھ با خدا سے ہوتی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse