صورت سے اس کی بہتر صورت نہیں ہے کوئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صورت سے اس کی بہتر صورت نہیں ہے کوئی
by حیدر علی آتش

صورت سے اس کی بہتر صورت نہیں ہے کوئی
دیدار یار سی بھی دولت نہیں ہے کوئی

آنکھوں کو کھول اگر تو دیدار کا ہے بھوکا
چودہ طبق سے باہر نعمت نہیں ہے کوئی

ثابت ترے دہن کو کیا منطقی کریں گے
ایسی دلیل ایسی حجت نہیں ہے کوئی

یہ کیا سمجھ کے کڑوے ہوتے ہیں آپ ہم سے
پی جائے گا کسی کو شربت نہیں ہے کوئی

میں نے کہا کبھی تو تشریف لاؤ بولے
معذور رکھیے وقت فرصت نہیں ہے کوئی

ہم کیا کہیں کسی سے کیا ہے طریق اپنا
مذہب نہیں ہے کوئی ملت نہیں ہے کوئی

دل لے کے جان کے بھی سائل جو ہو تو حاضر
حاضر جو کچھ ہے اس میں حجت نہیں ہے کوئی

ہم شاعروں کا حلقہ حلقہ ہے عارفوں کا
نا آشنائے معنی صورت نہیں ہے کوئی

دیوانوں سے ہے اپنے یہ قول اس پری کا
خاکی و آتشی سے نسبت نہیں ہے کوئی

ہژدہ ہزار عالم دم بھر رہا ہے تیرا
تجھ کو نہ چاہے ایسی خلقت نہیں ہے کوئی

نازاں نہ حسن پر ہو مہماں ہے چار دن کا
بے اعتبار ایسی دولت نہیں ہے کوئی

جاں سے عزیز دل کو رکھتا ہوں آدمی ہوں
کیوں کر کہوں میں مجھ کو حسرت نہیں ہے کوئی

یوں بد کہا کرو تم یوں مال کچھ نہ سمجھو
ہم سا بھی خیر خواہ دولت نہیں ہے کوئی

میں پانچ وقت سجدہ کرتا ہوں اس صنم کو
مجھ کو بھی ایسی ویسی خدمت نہیں ہے کوئی

ما و شما کہہ و مہ کرتا ہے ذکر تیرا
اس داستاں سے خالی صحبت نہیں ہے کوئی

شہر بتاں ہے آتشؔ اللہ کو کرو یاد
کس کو پکارتے ہو حضرت نہیں ہے کوئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse