صورت حال اب تو وہ نقش خیالی ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صورت حال اب تو وہ نقش خیالی ہو گیا
by برجموہن دتاتریہ کیفی

صورت حال اب تو وہ نقش خیالی ہو گیا
جو مقام ماسوا تھا دل میں خالی ہو گیا

ممتنع جو تھا وہ ہے زیب بداہت قلب کو
جو یقینی امر تھا وہ احتمالی ہو گیا

چھوڑی خود بینی تو اب ہر شے میں حسن آیا نظر
دیدۂ حق بیں جلالی سے جمالی ہو گیا

ذوق نظارہ یہ ہے آنکھوں پر اب رکھتا ہوں میں
ذرے ذرے کو جو نذر پائمالی ہو گیا

زعم اور پندار کا حق الیقیں سے ہے بدل
وہ گھروندہ اب تو فانوس خیالی ہو گیا

آنکھ اٹھ کر حسن قدرت سے جو اپنے پر گئی
سب خودی کا رنگ رنگ انفعالی ہو گیا

پہلے اس میں سر تھا اے صمصام عشق اور جان تھی
کیونکہ ملتا تجھ سے آ اب ہاتھ خالی ہو گیا

غیرت دل دادہ و دل دار کی جاتی رہی
اب تو جو ہونا تھا اے آقائے عالی ہو گیا

وجہ علم ذات ہو کیوں کر نہ عرفان صفت
کیا عرض کی شان جب جوہر سے خالی ہو گیا

جو رہا خوددار ہونے پر خودی سے دور دور
وہ دیار عشق و دل سوزی کا والی ہو گیا

ہے خطا اس کو اگر عاشق کہو تم جس کا عشق
ختم جب اس نے مراد اک اپنی پا لی ہو گیا

جذبۂ ایثار کیا قوت عمل کی پھر کہاں
جب شعور انساں کا صرف لاابالی ہو گیا

اے قدامت کیش سن یہ عالم ایجاد ہے
نام جدت کا ازل میں لا یزالی ہو گیا

چھوڑ کر لطف سخن مغز سخن سے کام لو
کیا ہوا کیفیؔ جو گرم خوش مقالی ہو گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse