صنم کے کوچے میں چھپ کے جانا اگرچہ یوں ہے خیال دل کا
Appearance
صنم کے کوچے میں چھپ کے جانا اگرچہ یوں ہے خیال دل کا
پہ وہ تو جاتے ہی تاڑ لے گا پھر آنا ہوگا محال دل کا
گہر نے اشکوں کے یاں نکل کر جھمک دکھائی جو اپنی ہر دم
تو ہم نے جانا کہ موتیوں سے بھرا ہے پہلو میں قال دل کا
کبھی اشارت کبھی لگاوٹ کبھی تبسم کبھی تکلم
یہ طرزیں ٹھہریں تو ہم سے پھر ہو بھلا جی کیوں کر سنبھال دل کا
وہ زلف پر پیچ و خم ہے اس کی پھنسا تو نکلے گا پھر نہ ہرگز
ہمارا کہنا ہے سچ ارے جی تو کام اس سے نہ ڈال دل کا
میں لحظہ لحظہ ہوں کھینچ لاتا وہ پھر اسی کی طرف ہے جاتا
کروں نظیرؔ اس کی فکر میں کیا ہے اب تو میرے یہ حال دل کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |