صنم کے کوچے میں چھپ کے جانا اگرچہ یوں ہے خیال دل کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صنم کے کوچے میں چھپ کے جانا اگرچہ یوں ہے خیال دل کا
by نظیر اکبر آبادی

صنم کے کوچے میں چھپ کے جانا اگرچہ یوں ہے خیال دل کا
پہ وہ تو جاتے ہی تاڑ لے گا پھر آنا ہوگا محال دل کا

گہر نے اشکوں کے یاں نکل کر جھمک دکھائی جو اپنی ہر دم
تو ہم نے جانا کہ موتیوں سے بھرا ہے پہلو میں قال دل کا

کبھی اشارت کبھی لگاوٹ کبھی تبسم کبھی تکلم
یہ طرزیں ٹھہریں تو ہم سے پھر ہو بھلا جی کیوں کر سنبھال دل کا

وہ زلف پر پیچ و خم ہے اس کی پھنسا تو نکلے گا پھر نہ ہرگز
ہمارا کہنا ہے سچ ارے جی تو کام اس سے نہ ڈال دل کا

میں لحظہ لحظہ ہوں کھینچ لاتا وہ پھر اسی کی طرف ہے جاتا
کروں نظیرؔ اس کی فکر میں کیا ہے اب تو میرے یہ حال دل کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse