صنم پاس ہے اور شب ماہ ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صنم پاس ہے اور شب ماہ ہے
by میر حسن دہلوی

صنم پاس ہے اور شب ماہ ہے
یہ شب ہے کہ اللہ ہی اللہ ہے

ترے ناز کیوں کر اٹھاؤں نہ میں
مری دوستی پر تو گمراہ ہے

تجھے ہوش اتنا نہیں بے خبر
مرے حال سے کب تو آگاہ ہے

ترا نام لیتے نکلتی ہے آہ
مری آہ کے دل میں کیا آہ ہے

کہاں برق عشق و کہاں کوہ صبر
بگولے کے آگے پر کاہ ہے

میں کیوں کر کہوں تجھ کو فرصت نہیں
پہ یہ بات کب تیرے دل خواہ ہے

نہ آنے کے سو عذر ہیں میری جاں
اور آنے کو پوچھو تو سو راہ ہے

میں اک روز پوچھا جو اس شوخ سے
کہ کیوں کچھ تجھے بھی مری چاہ ہے

تو ہنس کر لگا کہنے کیا خوب کیوں
تو میرا کہاں کا ہوا خواہ ہے

یہ سن کر جو میں چپ رہا تو کہا
ابے دل کا مالک تو اللہ ہے

حسنؔ وصل اور ہجر میں یار کے
کبھی آہ ہے اور کبھی واہ ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse