صفحے پہ کب چمن کے ہوا سے غبار ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صفحے پہ کب چمن کے ہوا سے غبار ہے
by عشق اورنگ آبادی

صفحے پہ کب چمن کے ہوا سے غبار ہے
یہ اپنے سر پہ خاک اڑاتی بہار ہے

شبنم کا کچھ نہیں گل نرگس او پر اثر
یہ دیکھ لو بہار کی چشم اشک بار ہے

یہ شاخ گل پہ غنچۂ گل سے بہار کا
یارو دل گرفتہ دیکھو آشکار ہے

ہوتا ہے گل کی طرز سے اظہار اس طرح
یہ پارہ پارہ دامن و جیب بہار ہے

گلشن کے بیچ یہ گل صد برگ نیں ہے زرد
اے عاشقو بہار کا رنگ عذار ہے

گلشن کے بیچ کہتے ہیں یہ جس کو لالہ زار
سو نوبہار کا جگر داغدار ہے

پتھر سے مار مار کے سر روتی ہے بہار
جس کو چمن میں کہتے ہیں یہ آبشار ہے

یہ حال خستہ دیکھ چمن میں بہار کا
حسرت سے میرے دل کے اپر خار خار ہے

گلشن کی طرح سے مجھ رنگیں دلوں کے بیچ
ہے خوش نما وہ جیب کہ جو تار تار ہے

صد چاک گل کا سن کے ہوا جیب پیرہن
یاں تک تو پر اثر سے فغان ہزار ہے

اک بلبل اسیر سے پوچھا میں کس لیے
آنے کا فصل گل کے تجھے انتظار ہے

کہنے لگی وہ عقدۂ خاطر کو کھول کر
گل گل شگفتہ ہوں میں سنوں جو بہار ہے

آنکھوں سے دل کے دید کو مانع نہیں نفس
عاشق کو عین ہجر میں بھی وصل یار ہے

اس شمع رو پہ دل سے تصدق ہے بلکہ عشقؔ
پروانہ وار جان سے ہر دم نثار ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse