Jump to content

صفحہ 1 - تصور

From Wikisource

تصور


” انسان ہر وہ چیز کرسکتا ہے جس کو وہ سوچ سکتا ہے“۔ اباجان نے کہا۔

” وہ کیسے؟“سعدیہ نے سوال کیا۔

ابا جان نے سوچ کو ایک کارخانے سے تشبیہ دی اور عقل و شعور کو ایک کمہار سے۔

” آپ سوچ کو ایک کارخانہ سمجھ لیں۔ اس کارخانے میں خواہش سے ہم منصوبے بنا تے ہیں اور جس طرح ایک کمہار چکنی مٹی سے مٹکا بناتا ہے اس طرح عقل و شعور ، خواہش کو شکل و صورت دیتی ہے۔ خواہش کو ایک راہ میں ڈھالنا ، گھڑنا اور منصوبے پر عمل ہونا دماغ کے عقل و شعور میں ہوتا ہے۔ انسان نےعقل و شعور کی مدد سے بیماریوں کا علاج دریافت کیےاور قدرتی قوتوں کو قابو کیا ہے ابا جان نے بتایا۔”سوچ دو طرح کی ہوتی ہے۔ اگر ہم پرانے قیاس، خیال، سوچ اور منصوبہ کے بنا پر کوئ نئ چیز پیدا کرتے ہیں تو یہ سوچ ، ترکیبی سوچ ہے“۔

” سوچ موجدہ میں الہامی خیال، تخلیقی تحریک اور آمد ہوتی ہے۔ انسان کا دماغ دوسرے انسانی دماغ سے رابطہ قائم کرلیتا ہے”۔اباجان نے دوسری سوچ کے متعلق بتایا۔

اباجان نے پوچھا۔” تم نے’ خطیب ڈاکٹر فرینک گن زاؤلس‘ کی کہانی سنی ہے؟ “

سعدیہ اور میں نے ایک ساتھ کہا۔” نہیں“۔

جب خطیب ڈاکٹر فرینک گن زاؤلس کالج کے طالب علم تھے انہوں نے اپنے کالج کے نظامِ تعلیم میں بہت سے نقص دیکھے۔اس نے سوچا کہ اگر وہ کالج کے منتظم ہوتے تو وہ ان کی اصلاح کر دیتے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک نیا کالج شروع کرے گا جس میں وہ اپنے منصوبوں کو بغیر پرانے رسمی طریقِ تعلیم کے نافذ کریں گے۔اس کام کو کرنے کے لیے ایک ملین ڈالر کی ضرورت تھی۔کہاں سے اتنی بڑی رقم ملے گی؟

خطیب تمام کامیابی کے اصول جانتا تھا۔ وہ جانتا تھاکہ مقصدِ مقرر سے کامیابی کی شروعات ہوتی ہے۔کوئ اور شخص اپنے آپ سے کہتا کہ یہ خیال تو اچھا ہے مگر میں کچھ نہیں کرسکتا کیوں کہ اس کام کے لیے ایک ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر ایسا دو سال سے سوچ رہا تھا۔ ایک سنیچر کی شام اس نے اپنے آپ سے کیا کہ دو سال سے میں دن رات اس کے متعلق سوچتا ہوں لیکن میں نے اس کے لیے کیا ،کیا ہے؟ ڈاکٹر نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ وہ ایک ہفتہ میں ا یک ملین ڈالر حاصل کرلےگا۔ جیسے ہی ڈاکٹر نے فیصلہ کیا کہ وہ اس رقم کو ایک ہفتہ میں حاصل کرے گا۔ ایک بھروسے اور یقین کی کیفیت اس پر طاری ہوگئ۔