صرف غم ہم نے نوجوانی کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صرف غم ہم نے نوجوانی کی
by میر اثر

صرف غم ہم نے نوجوانی کی
واہ کیا خوب زندگانی کی

اپنی بیتی اگر میں تجھ سے کہوں
بات نبڑے نہ اس کہانی کی

تیرے داغوں کی اے غم الفت
خوب ہم نے بھی باغبانی کی

جوں نگہ دل گیا ہے آنکھوں کی راہ
گرچہ ہم نے نگاہبانی کی

کس کے ہاں تم کرم نہیں کرتے
کبھو ایدھر نہ مہربانی کی

اپنے نزدیک درد دل میں کہا
تیرے نزدیک قصہ خوانی کی

ہرزہ گوئی سے مجھ کو دی ہے نجات
ہے گی منت یہ بے زبانی کی

نہیں طاقت کہ دم نکال سکوں
اب یہ نوبت ہے ناتوانی کی

اثرؔ اس حال پہ بھی جیتا ہے
کیا کہوں اس کی سخت جانی کی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.