صرف اک سوز تو مجھ میں ہے مگر ساز نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صرف اک سوز تو مجھ میں ہے مگر ساز نہیں
by اصغر گونڈوی

صرف اک سوز تو مجھ میں ہے مگر ساز نہیں
میں فقط درد ہوں جس میں کوئی آواز نہیں

مجھ سے جو چاہئے وہ درس بصیرت لیجے
میں خود آواز ہوں میری کوئی آواز نہیں

وہ مزے ربط نہانی کے کہاں سے لاؤں
ہے نظر مجھ پہ مگر اب غلط انداز نہیں

پھر یہ سب شورش‌ و ہنگامۂ عالم کیا ہے
اسی پردے میں اگر حسن جنوں ساز نہیں

آتش‌ جلوۂ محبوب نے سب پھونک دیا
اب کوئی پردہ نہیں پردہ بر انداز نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse