صد شکر بجھ گئی تری تلوار کی ہوس

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صد شکر بجھ گئی تری تلوار کی ہوس
by جلالؔ لکھنوی

صد شکر بجھ گئی تری تلوار کی ہوس
قاتل یہی تھی تیرے گنہ گار کی ہوس

مردے کو بھی مزار میں لینے نہ دے گی چین
تا حشر تیرے سایۂ دیوار کی ہوس

سو بار آئے غش ارنی ہی کہوں گا میں
موسیٰ نہیں کہ پھر ہو نہ دیدار کی ہوس

رضواں کہاں یہ خلد و ارم اور میں کہاں
آئے تھے لے کے کوچۂ دل دار کی ہوس

صیاد جب قفس سے نکالا تھا بہر ذبح
پوچھی تو ہوتی مرغ گرفتار کی ہوس

یوسف کو تیری چاہ کے سودے کی آرزو
عیسیٰ کو تیرے عشق کے آزار کی ہوس

دست ہوائے گل میں گریبان ہے مرا
دامن جنوں میں کھینچتی ہے خار کی ہوس

جب ہو کسی کا رشتۂ الفت گلے کا طوق
دیوانہ پن ہے سبحہ و زنار کی ہوس

مانع ہے ضبط چرخ پھنکے کیونکر اے جلالؔ
کس طرح نکلے آہ شرربار کی ہوس

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse