صدمے یوں غیر پر نہیں آتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صدمے یوں غیر پر نہیں آتے
by نظام رامپوری

صدمے یوں غیر پر نہیں آتے
تمہیں جور اس قدر نہیں آتے

پھر تسلی کی کون سی صورت
خواب میں بھی نظر نہیں آتے

آتے ہیں جب کہ ناامید ہوں ہم
کبھی وہ وعدے پر نہیں آتے

روز کے انتظار نے مارا
صاف کہہ دو اگر نہیں آتے

نہیں معلوم اس کا کیا باعث
روز کہتے ہیں پر نہیں آتے

اور تم کس کے گھر نہیں جاتے
ایک میرے ہی گھر نہیں آتے

اب تو ہے قہر آپ کا جانا
نہیں آتے اگر نہیں آتے

سچ ہے حیلے مجھی کو آتے ہیں
اور تمہیں کس قدر نہیں آتے

ان کو میں اس طرح بھلاؤں نظامؔ
یاد کس بات پر نہیں آتے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse