صدمے گزرے ایذا گزری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صدمے گزرے ایذا گزری
by رند لکھنوی

صدمے گزرے ایذا گزری
ہجر میں تیرے کیا کیا گزری

ہجر میں جان رہی یا گزری
رندؔ کہو تم پر کیا گزری

کیا کہوں تجھ سے حال فرقت
گزری جو کچھ جانا گزری

الفت بت نے کر دیا کافر
یہ کیا بار خدایا گزری

آئے نہیں تم عرصہ گزرا
منع کیا کس نے کیا گزری

گزرے جس دم ہم دنیا سے
ہم نے جانا دنیا گزری

بحر جہاں میں زیست ہماری
شکل حباب دریا گزری

کس سے کہیے کون سنے گا
کیا کیا گزرا کیا کیا گزری

کہتا تھا میں عشق سے باز آ
دیکھا جو دل شیدا گزری

مر بھی گئے ہم واہ ری غفلت
ان کو خبر بھی نہ اصلا گزری

اب تو ہے شغل خوں آشامی
نوبت جام و مینا گزری

کافر پر بھی نہ گزرے ایسی
ہم پر جو بت ترسا گزری

وقت مرگ یہ جی میں گزرا
زندگی اپنی بے جا گزری

نالہ کیسا آہ نہیں کی
کیا کیا تجھ بن ایذا گزری

ٹوٹ چکا ہے رشتۂ الفت
یاس ہے اب تو تمنا گزری

دوسرا تجھ سا کوئی نہ دیکھا
پیش نظر اک دنیا گزری

دیکھ کے حال مریض فرقت
حالت ہم پہ مسیحا گزری

قابل دید نہ دیکھیں آنکھیں
مدت نرگس شہلا گزری

غش کیوں آیا ہم سے تو کہیے
کیا کچھ حضرت موسیٰ گزری

کیوں کر جھیلی آفت فرقت
رندؔ کہو دل پر کیا گزری

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse