صدمے جو کچھ ہوں دل پہ سہیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صدمے جو کچھ ہوں دل پہ سہیے
by حفیظ جونپوری

صدمے جو کچھ ہوں دل پہ سہیے
پوچھے بھی کوئی تو چپ ہی رہیے

بے صبر ہی کہہ کے رک گئے کیوں
کہیے کہیے کچھ اور کہیے

آخر کب تک یہ بے نیازی
انصاف سے آپ ہی نہ کہیے

مر ہی جانے کی بات ہے یہ
میرے لیے آپ ظلم سہیے

آنکھوں میں غرور ہے کسی کا
کس طرح کسی سے دب کے رہیے

سننے کی جو بات ہو وہ سنیے
کہنے کی جو بات ہو وہ کہیے

رونے کو پڑی ہے عمر ساری
چھالوں کی طرح نہ پھوٹ بہیے

سنیے جو حفیظؔ کی مصیبت
رو دیجئے آپ میں نہ رہیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse