صدمہ ہر چند ترے جور سے جاں پر آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صدمہ ہر چند ترے جور سے جاں پر آیا
by مرزا محمد رفیع سودا

صدمہ ہر چند ترے جور سے جاں پر آیا
تس پہ شکوہ نہ کبھی میری زباں پر آیا

راست کیشوں کی تف آہ سے ڈر اے سرکش
تیر پھرتا نہیں جس وقت نشاں پر آیا

موسم شیب میں بے فائدہ ہے لعب شباب
کب ثمر دیوے ہے جو نخل خزاں پر آیا

دل پر خوں کو مرے غنچۂ تصویر کی طرح
لب وا شد نہ کبھی راز نہاں پر آیا

چشم انجم پہ نہیں ابر سے وہ روز سیاہ
جو مرے دیدۂ خوں ناب چکاں پر آیا

رات کو دیکھ کے اے ماہ تجھے غیر کے ساتھ
طعنہ زن دل کا مرے گل کے کتاں پر آیا

ہو کے استاد دبستان سخن میں سوداؔ
شعر کے قاعدہ دانان جہاں پر آیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse