صحبت غیر موں جایا نہ کرو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صحبت غیر موں جایا نہ کرو
by ولی دکنی

صحبت غیر موں جایا نہ کرو
درد منداں کوں کڑھایا نہ کرو

حق پرستی کا اگر دعویٰ ہے
بے گناہاں کوں ستایا نہ کرو

اپنی خوبی کے اگر طالب ہو
اپنے طالب کوں جلایا نہ کرو

ہے اگر خاطر عشاق عزیز
غیر کوں درس دکھایا نہ کرو

مجھ کو ترشی کا ہے پرہیز صنم
چین ابرو کوں دکھایا نہ کرو

دل کوں ہوتی ہے سجن، بیتابی
زلف کوں ہاتھ لگایا نہ کرو

نگہ تلخ سوں اپنی ظالم
زہر کا جام پلایا نہ کرو

ہم کوں برداشت نہیں غصے کی
بے سبب غصے میں آیا نہ کرو

پاک بازاں میں ہے مشہور ولیؔ
اس سوں چہرے کوں چھپایا نہ کرو


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.