صبر کر صبر دل زار یہ وحشت کیا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صبر کر صبر دل زار یہ وحشت کیا ہے
by جمیلہ خدا بخش

صبر کر صبر دل زار یہ وحشت کیا ہے
دشت پر خار میں جانے کی ضرورت کیا ہے

اک تحیر میں پڑا ہوں نہیں ملتا ہے پتہ
چشم بے خواب میں یہ صورت حسرت کیا ہے

دل میں بیٹھے ہیں تو پھر منہ کا چھپانا کیسا
اے بت ہوش ربا آپ کی عادت کیا ہے

لوریاں دے گی قضا چین سے سو جائیں گے
تیرے بیمار کو مرنے کی ضرورت کیا ہے

نیک و بد جب تری مرضی پہ ہوئے ہیں موقوف
بخت کہتے ہیں کسے اور یہ قسمت کیا ہے

دم آخر ہے مرا تم سر بالیں آؤ
ایک ساعت کے ٹھہرنے میں قباحت کیا ہے

روز عشرت میں سمجھتی ہوں جمیلہؔ اس کو
لوگ کس واسطے ڈرتے ہیں قیامت کیا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse