Jump to content

صبر وعدے پہ نہ تھا کام تمنائی کا

From Wikisource
صبر وعدے پہ نہ تھا کام تمنائی کا
by بیخود موہانی
323306صبر وعدے پہ نہ تھا کام تمنائی کابیخود موہانی

صبر وعدے پہ نہ تھا کام تمنائی کا
حشر ہے وصل کا دن یا مری رسوائی کا

حشر میں کیا تجھے دیکھیں گے ازل کے بچھڑے
حسن وہ اور زمانہ یہ خود آرائی کا

ابھی حیراں ابھی مضطر ابھی ہشیار ابھی مست
حال دیکھا ہی کرے تیرے تماشائی کا

اف ترا شوق میں بڑھنا وہ لپٹ جانے کو
اف وہ آئینے میں عالم تری انگڑائی کا

مری آنکھوں سے ٹپک پڑتے ہیں آنسو بیخودؔ
نام لیتا ہے اگر کوئی شکیبائی کا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.