صبر وحشت اثر نہ ہو جائے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صبر وحشت اثر نہ ہو جائے
by مومن خان مومن

صبر وحشت اثر نہ ہو جائے
کہیں صحرا بھی گھر نہ ہو جائے

رشک پیغام ہے عناں کش دل
نامہ بر راہبر نہ ہو جائے

دیکھو مت دیکھیو کہ آئینہ
غش تمہیں دیکھ کر نہ ہو جائے

ہجر پردہ نشیں میں مرتے ہیں
زندگی پردۂ در نہ ہو جائے

کثرت سجدہ سے وہ نقش قدم
کہیں پامال سر نہ ہو جائے

میرے تغییر رنگ کو مت دیکھ
تجھ کو اپنی نظر نہ ہو جائے

میرے آنسو نہ پونچھنا دیکھو
کہیں دامان تر نہ ہو جائے

بات ناصح سے کرتے ڈرتا ہوں
کہ فغاں بے اثر نہ ہو جائے

اے قیامت نہ آئیو جب تک
وہ مری گور پر نہ ہو جائے

مانع ظلم ہے تغافل یار
بخت بد کو خبر نہ ہو جائے

غیر سے بے حجاب ملتے ہو
شب عاشق سحر نہ ہو جائے

رشک دشمن کا فائدہ معلوم
مفت جی کا ضرر نہ ہو جائے

اے دل آہستہ آہ تاب شکن
دیکھ ٹکڑے جگر نہ ہو جائے

مومنؔ ایماں قبول دل سے مجھے
وہ بت آزردہ گر نہ ہو جائے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse