صبح ہے رات کہاں اب وہ کہاں رات کی بات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صبح ہے رات کہاں اب وہ کہاں رات کی بات
by ریاض خیرآبادی

صبح ہے رات کہاں اب وہ کہاں رات کی بات
بات ہی بات تو ہے بیٹھ بھی لو بات کی بات

عرش پر رہتے ہیں کیا کعبے کے رہنے والے
کوئی سنتا ہی نہیں اہل خرابات کی بات

یہ کوئی بات ہے خم ساتھ لئے واعظ آئے
اور پھر میں نہ سنوں قبلۂ حاجات کی بات

پھوٹ کر روتے ہوئے دیکھ لیا ہے مجھ کو
چھیڑنے کو مرے ہر وقت ہے برسات کی بات

وہی ابھری ہے شکن بن کے جبیں پر تیری
گڑ گئی دل میں ترے کیا کسی بد ذات کی بات

نہ کھلا یہ کہ کہاں شب کو بچھائی تھی بساط
غیر کی چال کا کچھ ذکر تھا کچھ بات کی بات

جب کہا میں نے کہو غیر کے گھر کا کچھ حال
بولے جھنجھلا کے نکالی وہی بے بات کی بات

کہیں ایسا نہ ہو آ جائے ترس آپ کو کچھ
آپ سنئے نہ کسی مورد آفات کی بات

ظرف بے مے سے پلائی تو حرم میں پھیلی
پھیلتی جلد ہے کچھ اہل کرامات کی بات

رات کعبے میں گئی قلقل مینا بن کر
نہ تو چھپتی ہے نہ دبتی ہے خرابات کی بات

کوستے ہیں وہ بری طرح جو کہتا ہوں ریاضؔ
رات بھر آج بھی ہوتی رہی کل رات کی بات

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse