صبح کی آمد

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صبح کی آمد
by اسماعیل میرٹھی

خبر دن کے آنے کی میں لا رہی ہوں
اجالا زمانہ میں پھیلا رہی ہوں
بہار اپنی مشرق سے دکھلا رہی ہوں
پکارے گلے صاف چلا رہی ہوں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

میں سب کار بہوار کے ساتھ آئی
میں رفتار و گفتار کے ساتھ آئی
میں باجوں کی جھنکار کے ساتھ آئی
میں چڑیوں کی چہکار کے ساتھ آئی
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

اذاں پر اذاں مرغ دینے لگا ہے
خوشی سے ہر اک جانور بولتا ہے
درختوں کے اوپر عجب چہچہا ہے
سہانا ہے وقت اور ٹھنڈی ہوا ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

یہ چڑیاں جو پیڑوں پہ ہیں غل مچاتی
ادھر سے ادھر اڑ کے ہیں آتی جاتی
دموں کو ہلاتی پروں کو پھلاتی
میری آمد آمد کے ہیں گیت گاتی
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

جو طوطے نے باغوں میں ٹیں ٹیں مچائی
تو بلبل بھی گلشن میں ہے چہچہائی
اور اونچی منڈیروں پہ شاما بھی گائی
میں سو سو طرح سے دی رہی ہوں دہائی
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

ہر ایک باغ کو میں نے مہکا دیا ہے
نسیم اور صبا کو بھی لہکا دیا ہے
چمن سرخ پھولوں سے دہکا دیا ہے
مگر نیند نے تم کو بہکا دیا ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

ہوئی مجھ سے رونق پہاڑ اور بن میں
ہر ایک ملک میں دیس میں ہر وطن میں
کھلاتی ہوئی پھول آئی چمن میں
بجھاتی چلی شمع کو انجمن میں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

جو اس وقت جنگل میں بوٹی جڑی ہے
سو وہ نولکھا ہار پہنے کھڑی ہے
کہ پچھلے کی ٹھنڈک سے شبنم پڑی ہے
عجب یہ سماں ہے عجب یہ گھڑی ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

ہرن چونک اٹھے چوکڑی بھر رہے ہیں
کلولیں ہرے کھیت میں کر رہے ہیں
ندی کے کنارے کھڑے چر رہے ہیں
غرض میرے جلوہ پہ سب مر رہے ہیں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

میں تاروں کی چھاں آن پہونچی یہاں تک
زمیں سے ہے جلوہ مرا آسماں تک
مجھے پاؤ گے دیکھتے ہو جہاں تک
کرو گے بھلا کاہلی تم کہاں تک
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

پجاری کو مندر کے میں نے جگایا
موذن کو مسجد کے میں نے اٹھایا
بھٹکتے مسافر کو رستہ بتایا
اندھیرا گھٹایا۔ اجالا بڑھایا
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

لدے قافلوں کے بھی منزل میں ڈیرے
کسانوں کے ہل چل پڑے منہ سویرے
چلے جال کندھے پہ لے کر مچھیرے
دلدر ہوئے دور آنے سے میرے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

بگل اور طنبور سنکھ اور نوبت
بجانے لگے اپنی اپنی سبھی گت
چلی توپ بھی دن سے حضرت سلامت
نہیں خوب غفلت۔ نہیں خوب غفلت
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

لو ہشیار ہو جاؤ اور آنکھ کھولو
نہ لو کروٹیں اور نہ بستر ٹٹولو
خدا کو کرو یاد اور منہ سے بولو
بس اب خیر سے اٹھ کے منہ ہاتھ دھو لو
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

بڑی دھوم سے آئی میری سواری
جہاں میں ہوا اب میرا حکم جاری
ستارے چھپے رات اندھیری سدھاری
دکھائی دئے باغ اور کھیت کیاری
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

میں پورب سے پچھم پہ کرتی ہوں دھاوا
زمیں کے کرہ پر لگاتی ہوں کاوا
میں طے کر کے آئی ہوں چین اور جاوہ
نہیں کہتی کچھ تم سے اس کے علاوہ
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse