صبح کو آئے ہو نکلے شام کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صبح کو آئے ہو نکلے شام کے
by حفیظ جونپوری

صبح کو آئے ہو نکلے شام کے
جاؤ بھی اب تم مرے کس کام کے

ہاتھا پائی سے یہی مطلب بھی تھا
کوئی منہ چومے کلائی تھام کے

تم اگر چاہو تو کچھ مشکل نہیں
ڈھنگ سو ہیں نامہ و پیغام کے

چھیڑ واعظ ہر گھڑی اچھی نہیں
رند بھی ہیں ایک اپنے نام کے

قہر ڈھائے گی اسیروں کی تڑپ
اور بھی الجھیں گے حلقے دام کے

محتسب چن لینے دے اک اک مجھے
دل کے ٹکڑے ہیں یہ ٹکڑے جام کے

لاکھوں دھڑکے ابتدائے عشق میں
دھیان ہیں آغاز میں انجام کے

مے کا فتویٰ تو سہی قاضی سے لوں
ٹوک کر رستے میں دامن تھام کے

دور دور محتسب ہے آج کل
اب کہاں وہ دور دورے جام کے

نام جب اس کا زباں پر آ گیا
رہ گیا ناصح کلیجا تھام کے

دور سے نالے مرے سن کر کہا
آ گئے دشمن مرے آرام کے

ہائے وہ اب پیار کی باتیں کہاں
اب تو لالے ہیں مجھے دشنام کے

وہ لگائیں قہقہے سن کر حفیظؔ
آپ نالے کیجئے دل تھام کے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse