صبح کا ترانہ
خبر دن کے آنے کی میں لا رہی ہوں
اجالا زمانے میں پھیلا رہی ہوں
بہار اپنی مشرق سے دکھلا رہی ہوں
پکارے گلے صاف چلا رہی ہوں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
اذاں پر اذاں مرغ دینے لگا ہے
خوشی سے ہر اک جانور بولتا ہے
درختوں کے اوپر عجب چہچہا ہے
سہانا ہے وقت اور ٹھنڈی ہوا ہے
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
یہ چڑیاں جو پیڑوں پہ ہیں گل مچاتیں
ادھر سے ادھر اڑ کے ہیں آتی جاتیں
دموں کو ہلاتیں پروں کو پھلاتیں
مری آمد آمد کے ہیں گیت گاتیں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
ہوئی مجھ سے رونق پہاڑ اور بن میں
ہر اک ملک میں دیس میں اور وطن میں
کھلاتی ہوئی پھول آئی چمن میں
بجھاتی چلی شمع کو انجمن میں
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
لو ہشیار ہو جاؤ اور آنکھیں کھولو
نہ لو کروٹیں اور نہ بستر ٹٹولو
خدا کو کرو یاد اور منہ سے بولو
بس اب خیر سے اٹھ کے منہ ہاتھ دھو لو
اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |