صبح کا بھید ملا کیا ہم کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صبح کا بھید ملا کیا ہم کو
by باقی صدیقی

صبح کا بھید ملا کیا ہم کو
لگ گیا رات کا دھڑکا ہم کو

شوق نظارا کا پردہ اٹھا
نظر آنے لگی دنیا ہم کو

کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری
اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو

بھیڑ میں کھو گئے آخر ہم بھی
نہ ملا جب کوئی رستہ ہم کو

تلخئ غم کا مداوا معلوم
پڑ گیا زہر کا چسکا ہم کو

تیرے غم سے تو سکون ملتا ہے
اپنے شعلوں نے جلایا ہم کو

گھر کو یوں دیکھ رہے ہیں جیسے
آج ہی گھر نظر آیا ہم کو

ہم کہ شعلہ بھی ہیں اور شبنم بھی
تو نے کس رنگ میں دیکھا ہم کو

جلوۂ لالہ و گل ہے دیوار
کبھی ملتے سر صحرا ہم کو

لے اڑی دل کو نسیم سحری
بوئے گل کر گئی تنہا ہم کو

سیر گلشن نے کیا آوارہ
لگ گیا روگ صبا کا ہم کو

یاد آئی ہیں برہنہ شاخیں
تھام لے اے گل تازہ ہم کو

لے گیا ساتھ اڑا کر باقیؔ
ایک سوکھا ہوا پتا ہم کو

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse