صبح وصال زیست کا نقشہ بدل گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صبح وصال زیست کا نقشہ بدل گیا
by امانت لکھنوی

صبح وصال زیست کا نقشہ بدل گیا
مرغ سحر کے بولتے ہی دم نکل گیا

دامن پہ لوٹنے لگے گر گر کے طفل اشک
روئے فراق میں تو دل اپنا بہل گیا

دشمن بھی گر مرے تو خوشی کا نہیں محل
کوئی جہاں سے آج گیا کوئی کل گیا

صورت رہی نہ شکل نہ غمزہ نہ وہ ادا
کیا دیکھیں اب تجھے کہ وہ نقشا بدل گیا

قاصد کو اس نے قتل کیا پرزے کر کے خط
منہ سے جو اس کے نام ہمارا نکل گیا

مل جاؤ گر تو پھر وہی باہم ہوں صحبتیں
کچھ تم بدل گئے ہو نہ کچھ میں بدل گیا

مجھ دل جلے کی نبض جو دیکھی طبیب نے
کہنے لگا کہ آہ مرا ہاتھ جل گیا

جیتا رہا اٹھانے کو صدمے فراق کے
دم وصل میں ترا نہ امانتؔ نکل گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse