صاف کہتے ہو مگر کچھ نہیں کھلتا کہنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صاف کہتے ہو مگر کچھ نہیں کھلتا کہنا
by امیر مینائی

صاف کہتے ہو مگر کچھ نہیں کھلتا کہنا
بات کہنا بھی تمہارا ہے معما کہنا

رو کے اس شوخ سے قاصد مرا رونا کہنا
ہنس پڑے اس پہ تو پھر حرف تمنا کہنا

مثل مکتوب نہ کہنے میں ہے کیا کیا کہنا
نہ مری طرز خموشی نہ کسی کا کہنا

اور تھوڑی سی شب وصل بڑھا دے یارب
صبح نزدیک ہمیں ان سے ہے کیا کیا کہنا

پھاڑ کھاتا ہے جو غیروں کو جھپٹ کر سگ یار
میں یہ کہتا ہوں مرے شیر ترا کیا کہنا

ہر بن موئے مژہ میں ہیں یہاں سو طوفاں
عین غفلت ہے مری آنکھ کو دریا کہنا

وصف رخ میں جو سنے شعر وہ ہنس کر بولے
شعر ہیں نور کے ہے نور کا تیرا کہنا

لا سکوگے نہ ذرا جلوۂ دیدار کی تاب
ارنی منہ سے نہ اے حضرت موسیٰ کہنا

کر لیا عہد کبھی کچھ نہ کہیں گے منہ سے
اب اگر سچ بھی کہیں تم ہمیں جھوٹا کہنا

خاک میں ضد سے ملاؤ نہ مرے آنسو کو
سچے موتی کو مناسب نہیں جھوٹا کہنا

کیسے ناداں ہیں جو اچھوں کو برا کہتے ہیں
ہو برا بھی تو اسے چاہئے اچھا کہنا

دم آخر تو بتو یاد خدا کرنے دو
زندگی بھر تو کیا میں نے تمہارا کہنا

پڑھتے ہیں دیکھ کے اس بت کو فرشتے بھی درود
مرحبا صل علیٰ صل علیٰ کیا کہنا

اے بتو تم جو ادا آ کے کرو مسجد میں
لب محراب کہے نام خدا کیا کہنا

ان حسینوں کی جو تعریف کرو چڑھتے ہیں
سچ تو یہ ہے کہ برا ہے انہیں اچھا کہنا

شوق کعبے لیے جاتا ہے ہوس جانب دیر
میرے اللہ بجا لاؤں میں کس کا کہنا

ساری محفل کو اشاروں میں لٹا دو اے جان
سیکھ لو چشم سخن گو سے لطیفہ کہنا

گھٹتے گھٹتے میں رہا عشق کمر میں آدھا
جامۂ تن کو مرے چاہئے نیما کہنا

میں تو آنکھوں سے بجا لاتا ہوں ارشاد حضور
آپ سنتے نہیں کانوں سے بھی میرا کہنا

چستیٔ طبع سے استاد کا ہے قول امیرؔ
ہو زمیں سست مگر چاہئے اچھا کہنا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse