صاف کب امتحان لیتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صاف کب امتحان لیتے ہیں
by داغ دہلوی

صاف کب امتحان لیتے ہیں
وہ تو دم دے کے جان لیتے ہیں

یوں ہے منظور خانہ ویرانی
مول میرا مکان لیتے ہیں

تم تغافل کرو رقیبوں سے
جاننے والے جان لیتے ہیں

پھر نہ آنا اگر کوئی بھیجے
نامہ بر سے زبان لیتے ہیں

اب بھی گر پڑ کے ضعف سے نالے
ساتواں آسمان لیتے ہیں

تیرے خنجر سے بھی تو اے قاتل
نوک کی نوجوان لیتے ہیں

اپنے بسمل کا سر ہے زانو پر
کس محبت سے جان لیتے ہیں

یہ سنا ہے مرے لیے تلوار
اک مرے مہربان لیتے ہیں

یہ نہ کہہ ہم سے تیرے منہ میں خاک
اس میں تیری زبان لیتے ہیں

کون جاتا ہے اس گلی میں جسے
دور سے پاسبان لیتے ہیں

منزل شوق طے نہیں ہوتی
ٹھیکیاں ناتوان لیتے ہیں

کر گزرتے ہیں ہو بری کہ بھلی
دل میں جو کچھ وہ ٹھان لیتے ہیں

وہ جھگڑتے ہیں جب رقیبوں سے
بیچ میں مجھ کو سان لیتے ہیں

ضد ہر اک بات پر نہیں اچھی
دوست کی دوست مان لیتے ہیں

مستعد ہو کے یہ کہو تو سہی
آئیے امتحان لیتے ہیں

داغؔ بھی ہے عجیب سحر بیاں
بات جس کی وہ مان لیتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse