صاف باطن دیر سے ہیں منتظر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صاف باطن دیر سے ہیں منتظر
by عزیز لکھنوی

صاف باطن دیر سے ہیں منتظر
ساقیا خذ ما صفا دع ما کدر

پھر حیات چند روزہ کا مآل
موت پر جب زندگی ہے منحصر

رت بدلتے ہی فضا میں گونج اٹھا
نغمۂ یا ایہا الساقی ادر

ایسے وادی میں نہیں کیا رہ نما
خود جہاں گم کردہ منزل ہوں خضر

مشورہ رحمت سے کر اے عدل حق
کیا سزا جو ہو خطا کا خود مقر

کیوں ہے اسرار دو عالم کی تلاش
پردۂ دل میں ہیں تیرے مستر

کیوں مری دیوانگی بدنام ہے
ان کی آنکھیں خود ہوئیں جب مشتہر

الحذر پیر فلک کی سرکشی
دیکھنے میں تو ہے اتنا منکسر

کھو چکا آنکھیں مگر اے برق حسن
دل رہے گا اور رہے گا منتظر

سن لے فریاد عزیزؔ جاں بہ لب
رب انی مستغیث فالفقر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse