صاف باتوں میں تو کدورت ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
صاف باتوں میں تو کدورت ہے
by نظام رامپوری

صاف باتوں میں تو کدورت ہے
اور لگاوٹ سے ظاہر الفت ہے

غیر سے بھی کبھی تو بگڑے گی
روٹھنا تو تمہاری عادت ہے

آپ کے لطف میں تو شک ہی نہیں
دل کو کس بات کی شکایت ہے

اس ستم گر سے شکوہ کیسے ہو
اور الٹی مجھے ندامت ہے

بولے دکھلا کے آئینہ شب وصل
دیکھیے تو یہی وہ صورت ہے

موت کو بھی نظر نہیں آتا
ناتوانی نہیں قیامت ہے

کچھ کہا ہوگا اس نے بھی قاصد
کچھ نہ کچھ تیری بھی شرارت ہے

کہو سب کچھ نہ روٹھنے کی کہو
یہ ہی کہنا تمہارا آفت ہے

واہ کیا تیری شاعری ہے نظامؔ
کیا فصاحت ہے کیا بلاغت ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse