شیفتہ ہجر میں تو نالۂ شب گیر نہ کھینچ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شیفتہ ہجر میں تو نالۂ شب گیر نہ کھینچ
by مصطفٰی خان شیفتہ

شیفتہ ہجر میں تو نالۂ شب گیر نہ کھینچ
صبح ہونے کی نہیں خجلتِ تاثیر نہ کھینچ

اے ستم گر رگِ جاں میں ہے مری پیوستہ
دم نکل جائے گا سینے سے مرے تیر نہ کھینچ

حور پر بھی کوئی کرتا ہے عمل دنیا میں
رنجِ بے ہودہ بس اے عاملِ تسخیر نہ کھینچ

عشق سے کیا ہے تجھے شکل تری کہتی ہے
حسنِ تقریر کو آہیں دمِ تقریر نہ کھینچ

ہے یہ سامان صفائی کا عدو سے کیوں کر
دستِ مشاطہ سے یوں زلفِ گرہ گیر نہ کھینچ

اے ستم پیشہ کچھ امیدِ تلافی تو رہے
دستِ نازک سے مرے قتل کو شمشیر نہ کھینچ

چارہ گر فکر کر اس میں، کہ مقدر بدلے
ورنہ بے ہودہ اذیت پئے تدبیر نہ کھینچ

کون بے جرم ہے جو شائقِ تعزیر نہیں
شوقِ تعزیر سے تو حسرتِ تقصیر نہ کھینچ

وجد کو زمزمۂ مرغِ سحر کافی ہے
شیفتہ نازِ مغنیِ و مزامیر نہ کھینچ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse