شیفتہ آیا ہوں میں کس کا تماشا دیکھ کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شیفتہ آیا ہوں میں کس کا تماشا دیکھ کر
by مصطفٰی خان شیفتہ

شیفتہ آیا ہوں میں کس کا تماشا دیکھ کر
رہ گئے حیران مجھ کو سب خود آرا دیکھ کر

شوقِ خوباں اُڑ گیا حوروں کا جلوہ دیکھ کر
رنجِ دنیا مٹ گیا آرامِ عقبیٰ دیکھ کر

ہے وہ آتش جلوہ، اشک افشاں ہمارے شور سے
شمع رو دیتی ہے پروانے کو جلتا دیکھ کر

خیر جو گزری سو گزری پر یہی اچھا ہوا
خط دیا تھا نامہ بر نے اس کو تنہا دیکھ کر

سائلِ مبرم کی پھبتی مجھ پہ فرمانے لگے
آرزوئے شوق کو گرمِ تقاضا دیکھ کر

ہے وہاں سستی طلب میں ، جان یاں بھاری نہیں
کام کرتے ہیں مزاجِ کارفرما دیکھ کر

ہیں تو دونوں سخت لیکن کون سا ہے سخت تر
اپنے دل کو دیکھئے میرا کلیجا دیکھ کر

گاؤں بھی ہم کو غنیمت ہے کہ آبادی تو ہے
آئے ہیں ہم سخت پُر آشوب صحرا دیکھ کر

اب کسے لاؤں گواہی کے لئے روزِ جزا
میرے دشمن ہو گئے، اس کو احبا دیکھ کر

میں کمینِ توبہ میں ہوں آپ ، لیکن کیا کروں
منہ میں بھر آتا ہے پانی جام و مینا دیکھ کر

التماسِ وصل پر بگڑے تھے بے ڈھب رات کو
کچھ نہ بن آئی مگر جوشِ تمنا دیکھ کر

دوستی کرتے ہیں اربابِ غرض ہر ایک سے
میرے عاشق ہیں عدو اب ربط اس کا دیکھ کر

بے نقط مجھ کو سناؤ گے جو دیکھو گے ستم
آپ عاشق تو ہوئے ہیں شوق میرا دیکھ کر

پھر کہو گے اس کو دل، فرماؤ اے اربابِ دل
جو نہ ہو بے تاب و مضطر، روئے زیبا دیکھ کر

یار پہلو میں نہیں، مے جام و مینا میں نہیں
تم ہوئے حیران مجھ کو نا شکیبا دیکھ کر

ناگہاں بادِ موافق شیفتہ چلنے لگی
جان پر کل بن رہی تھی شورِ دریا دیکھ کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse