شیخ حرم اس بت کا پرستار ہوا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شیخ حرم اس بت کا پرستار ہوا ہے
by راسخ عظیم آبادی
301947شیخ حرم اس بت کا پرستار ہوا ہےراسخ عظیم آبادی

شیخ حرم اس بت کا پرستار ہوا ہے
بت خانہ نشیں باندھ کے زنار ہوا ہے

ہر حرف پہ دو آنسو ٹپک پڑتے ہیں اے وائے
خط یار کو لکھنا ہمیں دشوار ہوا ہے

کوتہ نہ سمجھ آہ ضعیفان کو یہ تیر
سو بار دل عرش سے بھی پار ہوا ہے

اے صید فگن غم سے ترے دوری کہ میرا
ہر زخم دل اک دیدۂ خوں بار ہوا ہے

ہستی تری پردہ ہے اٹھا دے اسے غافل
کیوں ایسا حجاب رخ دل دار ہوا ہے

آگے ترے تھی گرم سخن ہونے کی حسرت
سو بھرنا دم سرد بھی دشوار ہوا ہے

کر قدر تو راسخؔ کی کہ اس طرح کا آزاد
یوں دام میں آ تیرے گرفتار ہوا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse