شہزادی کی بپتا
ہونے کو تو غدر پچاس برس کی کہانی ہے مگر مجھ سے پوچھو تو کل کی سی بات معلوم ہوتی ہے۔ ان دنوں میری عمر سولہ سترہ برس کی تھی۔ میں اپنے بھائی یاور شاہ سے دو برس چھوٹی اور مرنے والی بہن ناز بانو سے چھ سال بڑی ہوں۔ میرا نام سلطان بانو ہے۔ ابا جان مرزا قویش بہادر ظل سبحانی حضرت بہادر شاہ کے چہیتے اور نونہال فرزند تھے۔
بھائی یاور شاہ اور ہم بہنوں میں بڑی محبت تھی۔ ہر ایک دوسرے پر فدا تھا۔ آکا بھائی کے لیے باہر کئی استاد طرح طرح کی باتیں سکھانے والے تھے۔ کوئی حافظ تھا اور کوئی مولوی، کوئی خوش نویس تھا اور کوئی تیر انداز۔ اور ہم محل میں سینا پرونا اور کشیدہ کاڑھنا مغلانیوں سے سیکھتے تھے۔ دستور تھا کہ حضرت ظل سبحانی جن بچوں اور بڑوں پر خاص نظر عنایت رکھتے تھے، ان کو صبح کا کھانا شاہی دستر خوان پر حضور والا کے ہمراہ کھلا یا جاتا تھا۔ چنانچہ ظل سبحانی مجھ کو بھی بہت چاہتے تھے اور میں ہمیشہ صبح کے وقت کھانے کے واسطے بلائی جاتی تھی۔ جب میں نے ہوش سنبھالا، چچا ابوبکر کے لڑکے مرزا سہراب بھی کھانا کھانے آیا کرتے تھے۔ اگر چہ ہمارے کل خاندان میں باہم پردہ نہ تھا او ر نہ اب ہے۔ شرعی نامحرم گھر میں آتے جاتے تھے، مگر میں اپنی طبیعت سے مجبور تھی۔ میں ایک آن کے لیے کسی غیر مرد کے سامنے جانا گوارا نہ کرتی تھی۔ پر کیا کرتی، حضور کے حکم کے خلاف دستر خوان پر کس طرح نہ جاتی۔ لیکن غنیمت یہ تھا کہ آداب سلطانی کے باعث سب نظریں جھکائے رکھتے تھے۔ مجال نہ تھا کہ ایک بچہ بھی ادھر ادھر دیکھے یا آواز سے بولے۔
قاعدہ یہ تھا کہ جب حضور معلیٰ کوئی خاص کھانا کسی کو مرحمت فرماتے تو وہ بچہ ہو یا جوان، عورت ہو یا مرد، اپنی جگہ سے اٹھ کر جائے ادب پر جاتا اور جھک کر تین سلام بجا لاتا۔ ایک دن میرے ساتھ بھی یہی اتفاق پیش آیا کہ حضور نے ایک نئی قسم کا ایرانی کھانا مجھ کو عطا کیا اور فرمایا، ’’سلطانہ! تو تو کچھ کھاتی ہی نہیں، ادب اور لحاظ ایک حد تک اچھا ہوتا ہے نہ کہ اتنا کہ دسترخوان پر سے بھوکا اٹھا جائے۔‘‘ میں کھڑی ہوئی اور جائے ادب پر جا کر تین آداب بجا لائی مگر کچھ نہ پوچھو، اس مشکل سے آئی گئی کہ دل ہی جانتا ہے۔ ہر قدم پر الجھتی تھی اور اوسان خطا ہوئے جاتے تھے۔
اب میں سوچتی ہوں کہ وہ زمانہ کیا ہوا۔ وہ خوشی کے دن کہاں چلے گئے۔ جب ہم اپنے محلوں میں آزاد و بے فکر پھرا کرتے تھے۔ ظل سبحانی کا سایہ سر پر تھا اورلوگ ہمیں عالم کہہ کر پکارتے تھے۔ دنیا کے اتار چڑھاؤ ایسے ہی ہوتے ہیں۔
مجھے خوب یاد ہے کہ جب حضور معلیٰ مقبرہ ہمایوں میں گرفتار کئے گئے اور ایک گورے نے چچا جان حضرت مرزا ابوبکر بہادر کے تپنچہ مارا تو میرزا سہراب تلوار گھسیٹ کر دوڑے، مگر دو سے گورے نے ان کے گولی مار دی اور وہ ایک آہ کر کے چچا جان کی نعش پر گر پڑے اور تڑپ کر ٹھنڈے ہوگئے اور میں بت بنی تماشا دیکھتی رہی۔ اتنے میں خواجہ آیا اور کہنے لگا، ’’ بیگم! کیوں کھڑی ہو۔ چلو تمہارے ابا جان نے بلایا ہے۔‘‘ میں اسی بیخودی کے عالم میں اس کے ساتھ ہولی۔ دریائی دروازے سے اتر کر دیکھا کہ ابا جان میرزا قویش بہادر گھوڑے پر سوار ننگے سر کھڑے ہیں۔ تمام چہرے اور سر کے بال خاک آلود ہو رہے ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی آنسو بھر لائے اور فرمایا، ’’لوسلطانہ! اب ہمارا بھی کوچ ہے۔ جو ان بیٹا جس کے سہرے کی آرزو تھی، آنکھوں کے سامنے ایک سکھ کی سنگین کا نشانہ بن گیا۔‘‘ یہ سنتے ہی میں نے ایک چیخ ماری اور ہائے بھائی یاور کہہ کر رونے لگی۔
وہ گھوڑے سے اتر آئے۔ مجھ کو اور ناز بانو کو گلے لگا کر پیار کیا اور تسلی دینے لگے اور کہا، ’’بیٹی! اب لوگ میری تلاش میں بھی ہیں۔ دو چار گھڑی کا مہمان ہوں۔ تم ماشاء اللہ جوان اور سمجھ دار ہو۔ اپنی چھوٹی بہن کو دلاسا دو اور آنے والی مصیبتوں پر صبر کرو۔ خبر نہیں اس کے بعد کیا پیش آنے والا ہے۔ جی تو نہیں چاتا کہ تم کو تن تنہا چھوڑ کر کہیں جاؤں، پر ایک نہ ایک دن تمہیں بن باپ کا بننا ہی پڑے گا۔ ناز بانو تو ابھی بچی ہے۔ اس کی دل داری کرنا اور نیکی سے زندگی بسر کرنا اور دیکھوناز بانو! اب تم شہزادی نہیں ہو۔ کسی چیز کے لئے ضد نہ کرنا۔ جو میسر آئے، شکر کر کے کھا لینا اور اگر کوئی شخص کچھ کھاتا ہو تو آنکھ اٹھا کر نہ دیکھنا، ورنہ لوگ کہیں گے کہ شہزدیاں بڑی بد نیت ہوتی ہیں۔‘‘ پھر ہم دونوں کو خواجہ سرا کے سپرد کر کے کہا، ’’ان کو جہاں ہمارے خاندان کے اور آدمی ہوں، پہنچا دینا۔‘‘ اس کے بعد ہم کو پیار کیا اور روتے ہوئے گھوڑا دوڑاتے جنگل میں گھس گئے پھر پتہ نہ لگا کہ وہ کیا ہوئے۔
خواجہ سرا ہم کو لے چلا۔ یہ ہمارے گھر کا قدیمی نمک خوار تھا۔ تھوڑی دور تک ناز بانو جو نازوں کی پلی ہوئی تھی، چلی مگر پھر پاؤں کی طاقت نے جواب دے دیا اور قدم چلنا دوبھر ہو گیا۔ مجھ کو بھی کبھی پیدل چلنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ جگہ جگہ ٹھوکریں کھاتی تھی مگر بانو کو لیے ہوئے چلی جاتی تھی۔ اتنے میں ناز بانو کے ایک نوکدار کانٹا چبھ گیا اور وہ ہائے کہہ کر گر پڑی۔ میں نے جلدی سے اس کو اٹھایا اور کانٹا نکالنے لگی، مگر موا خواجہ سرا کھڑا دیکھا کیا اور یہ نہ ہوا کہ میرا ہاتھ بٹا لیتا بلکہ چلنے کی جلدی کرنے لگا۔ بہن بولی، ’’آپا جان! مجھ سے پیدل نہیں چلا جاتا۔ ناظر کو بھیج کر گھر سے پالکی منگا لو۔‘‘ گھر اور پالکی کا نام سن کر میرا جی بھر آیا اور اس کو تسلی دینے لگی۔ خواجہ سر انے پھر کہا کہ ’’ چلو بس ہو چکا۔ جلدی چلو۔‘‘ ناز بانو کا مزاج تیز تھا۔ وہ نوکروں کو ہمیشہ سخت سست کہہ لیا کرتی تھی اور یہ لوگ دم بخود ہو کر سن لیتے تھے۔
اسی خیال سے اس نے خواجہ سرا کو پھر ایک دو باتیں سنا دیں۔ کم بخت کو سنتے ہی اتنا غصہ آیا کہ آپے سے باہر ہو گیا اور بڑی بے ترسی سے بن باپ کی دکھیا بچی کے ایک طمانچہ مارا۔ بانو بلبلا گئی۔ وہ کبھی پھول کی چھڑی سے بھی نہ پٹی تھی یا ایسا طمانچہ لگا۔ اس کے رونے سے مجھ کو بھی بے اختیار رونا آگیا۔ ہم تو روتے رہے اور خواجہ سرا کہیں چلا گیا۔ پھر خبر نہ ملی کہ وہ کیا ہوا۔
ہم دونوں بمشکل تمام گرتے پڑتے درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء ؒ میں پہنچے۔ یہاں دہلی کے اور خاص ہمارے خاندان کے سینکڑوں آدمی تھے، مگر ہر ایک اپنی اپنی مصیبت میں گرفتار قیامت کا نمونہ تھا۔ کسی نے بات تک نہ پوچھی۔ اسی اثناء میں وبا پھیلی اور پیاری بہن ناز بانو اس میں رخصت ہوگئیں۔ میں اکیلی رہ گئی۔ امن ہوا جب بھی مجھ دکھیا کو سکھ نہ ملا۔ آخر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ انگریزی سرکار نے ہم لوگوں کی پرورش کرنی چاہی اور میرا پانچ روپیہ مہینہ وظیفہ مقرر ہوا، جو اب بھی ملتا ہے۔
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |