شہر میں انصاف کیا اچھا ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شہر میں انصاف کیا اچھا ہوا
by نازش بدایونی

شہر میں انصاف کیا اچھا ہوا
آپ سچے اور میں جھوٹا ہوا

ہو گیا وہ بے نیاز دو جہاں
اے خیال یار جو تیرا ہوا

رنگ رخ ہے ترجمان وصل غیر
زلف برہم سے تو پوچھو کیا ہوا

تھم ذرا اے دیدۂ خوں بار آج
دیکھ تو یہ کون ہے بیٹھا ہوا

آگ بھڑکانے کو نکلی دل سے آہ
طور پر جو کچھ ہوا تھوڑا ہوا

اک تڑپ میں اور وہ بیتاب ہوں
تو بھی اے درد جگر اتنا ہوا

سیکھ لے ہم سے کوئی انداز عشق
سو ترا یہ رنگ ہے برتا ہوا

اٹھ گیا جب ان کے چہرے سے نقاب
ذرہ ذرہ دیدۂ بینا ہوا

ایک ہنگامہ تھا ان کو چاہنا
اقربا میں حشر سا برپا ہوا

سانس اکھڑا نبض چھوٹی میں چلا
ہائے تم اب تک نہ سمجھے کیا ہوا

شاہد و مینا مقدر میں نہیں
با خدا نازشؔ عبث پیدا ہوا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse