شہر لگتا ہے بیابان مجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شہر لگتا ہے بیابان مجھے
by یوسف ظفر

شہر لگتا ہے بیابان مجھے
کہیں ملتا نہیں انسان مجھے

میں ترا نقش قدم ہوں اے دوست
اپنے انداز سے پہچان مجھے

میں تجھے جان سمجھ بیٹھا ہوں
اپنے سائے کی طرح جان مجھے

تو کہاں ہے کہ ترے پردے میں
لیے پھرتا ہے ترا دھیان مجھے

تیری خوشبو کو صبا لائی تھی
کر گئی اور پریشان مجھے

سر و سامان دو عالم ہوں میں
کیوں کہو بے سر و سامان مجھے

میری ہستی ترا افسانہ تھی
موت نے دے دیا عنوان مجھے

دل کی دھڑکن پہ گماں ہوتا ہے
ڈھونڈھتا ہے کوئی ہر آن مجھے

میں بھی آئینہ ہوں تیرا لیکن
تو نے دیکھا کبھی حیران مجھے

ان کی نسبت کا کرشمہ ہے ظفرؔ
کہتے ہیں یوسف کنعان مجھے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse