شہرۂ آفاق مجھ سا کون سا دیوانہ ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شہرۂ آفاق مجھ سا کون سا دیوانہ ہے
by حیدر علی آتش

شہرۂ آفاق مجھ سا کون سا دیوانہ ہے
ہند میں میں ہوں پرستاں میں مرا افسانہ ہے

صید گاہ مرغ دل رخسارۂ جانانہ ہے
دام زلف عنبریں ہے خال مشکیں دانہ ہے

حسن سے رتبہ ہے اپنے عشق کامل کا بلند
آستانہ پر پری ہے بام پر دیوانہ ہے

اس میں رہتا ہے صفائے روئے جاناں کا خیال
دل نہیں پہلو میں اپنے آئینہ کا خانہ ہے

بیچتا ہوں دل کو جو محبوب چاہے مول لے
بوسہ قیمت ہے توجہ کی نظر بیعانہ ہے

پھوٹیں وہ آنکھیں نگاہ بد سے جو دیکھیں تجھے
آتشیں رخسار مجمر خال کالا دانہ ہے

روز و شب اس شمع رو کو بھیجتا ہوں خط شوق
نامہ بر دن کو کبوتر رات کو پروانہ ہے

خار خار دل غنیمت جانتا ہوں عشق میں
زلف دود آہ کی آراستگی کاشانہ ہے

شرح لکھا چاہئے اس کی بیاض صبح پر
مطلع خورشید بیت ابرو جانانہ ہے

حالت آئینہ رکھتا ہے صفا سے دل مرا
آشنا سے آشنا بیگانہ سے بیگانہ ہے

قتل سے مجھ سخت جاں کے منکر اے قاتل نہ ہو
حجت قاطع تری تلوار کا دندانہ ہے

واسطے ہر شے کے دنیا میں مقرر ہیں محل
شہر میں جب تک ہے مجنوں گنج بے ویرانہ ہے

باغ عالم میں نہیں اس شوخ سا کوئی حسیں
گل ہے اپنا یار یوسف سبزۂ بیگانہ ہے

اب نہیں اے یار جوبن کو ترے بیم زوال
خط مشکیں حسن کی جاگیر کا پروانہ ہے

حال ہے جس کا اسی کے واسطے ہے خوش نما
نقص ہے تلوار کا وصف ارہ کا دندانہ ہے

یار کھینچے تیغ تیرے قتل کرنے کے لیے
سر جھکا آتشؔ یہ جائے سجدۂ شکرانہ ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse