شہرت ہے میری سخن وری کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شہرت ہے میری سخن وری کی
by میر کلو عرش

شہرت ہے میری سخن وری کی
ہندی میں ہے طرز فارسی کی

کیوں ذکر وصال سے خفا ہو
یہ بات تو ہے ہنسی خوشی کی

اللہ رے نزاکت لب یار
بت خانے پڑے جو مے کشی کی

شکوہ نہ کروں میں تا لب گور
دشمن بھی کہے کہ دوستی کی

ہو دیدۂ مہر شبنم افشاں
حالت جو دکھاؤں بے کسی کی

جب موت کسی طرح نہ آئے
گھبرا کر ہم نے عاشقی کی

خاموش ہو شمع روتے روتے
تقریر کروں جو خامشی کی

اے موت عذاب سے چھڑایا
اس قید سے تو نے مخلصی کی

بلبل کو کیا اسیر گل دام
صیاد نے خوب منصفی کی

دیکھا جو وہ رشک ماہ کنعاں
رنگت ہوئی زر دستری کی

پہنچے نہ برنگ شانہ تا زلف
کیا بخت سیہ نے کوتاہی کی

دوزخ کی طرح جلیں نہ زاہد
جنت میں بھی ہم نے مے کشی کی

نالے کیے چپکے چپکے روئے
کیا کیا غم یار کی خوشی کی

غولوں نے لحد پہ ہوں وہ وحشی
آنکھوں سے آ کے روشنی کی

اے عرشؔ خدا و بت احد ہیں
مشرک کو سمائی ہے دوئی کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse