شگوفہ محبت/ابتدا اُس کہانی کی ہے جس کے ہر فقرے میں انتہا خوش بیانی کی ہے۔ اضطرار میں نکلنا آذر شاہ کا، پہاڑ پر مل جانا ولی اللہ کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

ابتدا اُس کہانی کی ہے جس کے ہر فقرے میں انتہا خوش بیانی کی ہے۔ اضطرار میں نکلنا آذر شاہ کا، پہاڑ پر مل جانا ولی اللہ کا


محررانِ حال و مآلِ شاہانِ گذشتہ، مورخانِ ذی اعتبار تاریخ دان دانستہ لکھتے ہیں کہ یہ جو چار دانگ عالم ہندوستان مشہور ہے، شہر تو کیا ہر دیہ و قریہ تک اس کا لطافت اور حسن و خوبی سے معمور ہے۔ کسی زمانے میں یہاں کا تاجدار پُر صولت باوقار آذر شاہ معدلت پناہ تھا۔ سزاوار اریکۂ جہاں بانی بزم افروز محفل کیانی؂

بہت بادشاہ اس کو دیتے تھے باج

خطا و ختن تک تھا اس کا خراج

کوئی دیکھتا آ کے گر اُس کی فوج

سمجھتا کہ ہے بحر ہستی کی موج


عدل و داد کہ ملک جس سے آباد ہوتا ہے، رعایا کا دل شاد ہوتا ہے، اس میں بے مثل لاثانی تھا۔ فی الحقیقت زینت بخش سریر سلطانی تھا۔ گردن کشانِ دہر غاشیۂ اطاعت بر دوش رہتے تھے۔ سطوت و صولت سے باختہ سب کے ہوش رہتے تھے۔ فوج ظفر موج عدد اور شمار سے افزوں، ہزراہا گنج رشک خزانۂ قارون، وزیر امیر عقیل امانت دار دیانت شعار، پسینے پر لہو بہانے والے جان نثار ندیم فہیم ادیب غریب فہمیدہ، طبیب عجیب سنجیدہ، زمانے کے چیدہ، امورات جہان نیرنگی گردونِ گردان سے فارغ البال، لاولدی کے غم چھٹ، رنج نہ ملال، اکثر سلطنت کی ضرورت سے فرصت پا کے تخلیہ میں وہ ندیم تجربہ رسیدہ سیاہ روزگار اور وہ حکیم جہاں دیدہ فلاطون شعار جو تھے سب کو بلا کے ان سے گفتگو رہتی تھی کہ دنیا مقام گذران ہے، ہر شخص یہاں رواں دواں ہے۔ بجز ذاتِ پروردگار یہاں کے لیل و نہار کو ایک ڈھنگ پر دم بھر ثبات و قرار نہیں۔ یہاں کی ہر شے سے پیدا ہے کہ پائدار نہیں۔ خدا نے ساز و سامانِ سلطنت، اسبابِ شوکت و حشمت سب کچھ عطا کیا مگر وارث اس کا جو پیدا نہ ہوا تو ہم نے یہ سب جمع کر کے کیا کیا۔ جو کچھ ہے، ہم تو اس کے چھوڑنے کی حسرت قبر میں لے جائیں گے، غیر اس پر قبضہ کر کے زندگی کے مزے اڑائیں گے۔ اس سے تو بہتر یہ ہے کہ زیادہ بوجھ اپنے سر پر نہ لیجیے، چھوٹ جانے سے پہلے سلطنت کو چھوڑ دیجیے۔ اس کے جواب میں متفق اللفظ سب تسکین اور تشفی کے کلام عرض کرتے تھے کہ آپ اتنا نہ گھبرائیے، ایسے خیال مزاج مبارک میں نہ لائیے۔ ہر شے کے واسطے ایک وقت معین مقرر ہے، غیب کی کس کو خبر ہے۔ کسی کو وقت سے پیش اور مقدر سے بیش کچھ ملا نہیں، حاکم کا گِلا نہیں۔ یہ سن کے چپ ہو رہتا۔ گو دل کا نہ ملال جاتا، کج بحثی نہ کرتا، ٹال جاتا۔

ایک روز نصف شب گذری، اس کی آنکھ کھل گئی، وہی خیال بہرحال رہتا تھا، صدمے سہتا تھا۔ الجھن میں نیند نہ آئی، دفعۃً زیادہ جو گھبرایا، سلطنت سے منہ کو موڑا، سرد آہ بھر کر گرم رفتار ہوا، شہر کو خالی چھوڑا، بے توشہ و زادِ راہ وہ بادشاہ جنگل کی طرف چل نکلا۔ شب تیرہ و تار، رفیق نہ غمگسار۔ اندھیری رات، میدان کی سائیساں، عقل گم، ہوش حواس پرّاں، نہ سواری کا اہتمام، نہ لوگوں کی دھوم دھام، نہ صدائے نقارہ، نہ ندائے بوق و کوس، پیادہ پا یکہ و تنہا بصد حسرت و افسوس بُری نوبت سے کئی کوس طے کیے کہ فلک جفا پسند پُر گزند نے وہ خراب حال دکھانے کو شمع مومی و کافوری کے فراق میں جلانے کو مشعلِ ماہ آسمان اول پر روشن کی۔ اب جو کوئی ٹھوکر کھائے تو پستی و بلندی نظر آئے۔ پہاڑ دیکھا سر بفلک کشیدہ، چوٹی اُس کی آسمان سے ملی، ہر قسم کا درخت خود رو پھولا پھلا تھا۔ جنگل تک پھولوں کی بو باس سے مہک رہا تھا، جس کو جینے سے یاس ہو، اس کو مرنے کا کب وسواس ہو۔ بادشاہ کو نہ درندے کا ڈر تھا نہ گزندہ سے خوف و خطر تھا۔ مردانہ وار قدم ہمت بڑھاتا تھا، بے تکلف اُس نشیب و فراز میں چڑھا جاتا تھا۔ جب تھکتا تو کسی پتھر پر بیٹھ جاتا، دم لے کے آگے قدم اٹھاتا۔ القصہ بہزار خرابی راہ طے کی، اوپر پہنچا۔ اس عرصے میں صبح کا سپیدا چمکا۔ جانوران خوش الحان بذکر یزدان زمزمہ سنج اور نغمہ پرداز ہوئے، درِ اجابت حاجت مندوں پر باز ہوئے اور سجادہ نشینِ چرخ اول نے جانمازِ انجم لپیٹی۔ و الفجر کی صدا آئی۔ زاہد فلک چارم چونکا، اپنی چمک دمک دکھائی، جہاں تک نگاہ گئی گلہائے رنگا رنگ نظر آئے، چشمہ ہائے سرد و شیریں جا بجا جاری پائے۔ اس نے وضو کر کے نماز صبح پڑھی پھر دستِ دعا بدرگاہ خالقِ ارض و سما بلند کر کےبہت رویا، کہا “اے پروردگار! کل تو وہ شان و شوکت تھی، آج عالم تنہائی اور یہ سامان ہے۔ تو قادر و توانا علیم و دانا ہے، اگر مژدۂ تمنا پاؤں گا تو مُنہ لوگوں کو دکھاؤں گا، وگرنہ اس پہاڑ سے نیچے گر کے جان دوں گا، دربدر بہکتا نہ پھروں گا”۔

یہ تو اس شغل میں تھا، دفعۃً ایک مرد بزرگ سن رسیدہ گرم سردِ زمانہ دیدہ نظر آئے۔ عمامہ سر پر، عبا زیب دوش و بر، داہنے ہاتھ میں کنٹھا بائیں میں عصا، زیتون کا وظیفہ پڑھتا قریب آیا۔ بادشاہ اٹھ کر کھڑا ہوا، سلام کیا۔ اس نے جواب دے کر کہا “اے شہر یار باوقار! اتنے سے امتحان میں اُس کی رحمت کی وسعت کو بھول گئے، ہاتھ پاؤں پھول گئے”۔ آذر شاہ سمجھا کہ گو اس کا مسکن کوہ وجبال ہے مگر یہ برگزیدہ مقرر صاحب کمال ہے۔ لجاجت اور سماجت سے اپنی گذشتہ داستان مشروحاً بیان کی۔ اس مقبول ذو الجلال شیریں مقال نے فرمایا کہ یہ امور تقدیر ہیں، اضطراب اس میں بیجا ہے۔ بابا دنیا کا معاملہ بہت ٹیڑھا ہے۔ حکومت، تدبیر، عقل، مال و زر، فوج لشکر یہاں سب کچھ بیکار ہے۔ حاکم احکم الحاکمین ہے، اس کا اختیار ہے؛ بہر حال اسی سے التجا کرو۔ محتاجوں کی حاجت بر لاؤ، بھوکے کو کھانا، ننگے کو کپڑے پہناؤ۔ سوال کسی کا نہ رد کرو۔ دعا مانگنے میں کد کرو، وہ ارحم الراحمین مشہور ہے۔ اس کی عنایت سے کیا دور ہے کہ نخل تمنا تمھارا گل و بار لائے، فرزند سعادت مند پروردگار مرحمت فرمائے۔

اس کلام سے بادشاہ کی یاس امید سے بدل گئی، طبیعت سنبھل گئی۔ پوچھا کہ آپ کون ہیں، جگہ یہ کیا ہے، بود و باش کیونکر ہے، معاش کیونکر ہے، تنہا ہو یا شریک اور کوئی بندہ خدا ہے۔ دن رات کس شغل میں بسر ہوتی ہے، شامِ تنہا کس طرح سحر ہوتی ہے۔ وہ مرد پیر با دل دلگیر بیٹھ گیا، کہا “اے سلطان ذی شان! یہ بڑی داستان ہے مگر عبرت کرنے کا بیان ہے۔ اور تو مضطر ہے، تجھ سے کہنا بہتر ہے۔ بگوش ہوش سُن اے والا نژاد! بندہ بھی آدم زاد ہے۔ یہ جو موسم جوانی عالم شباب ہوتا ہے بہت خراب ہوتا ہے۔ انسان بے خوف و خطر ہوتا ہے۔ نہ خدا سے شرم نہ حاکم کا ڈر ہوتا ہے۔ اُن دنوں میرا پیشہ قزّاقی کا تھا، انکار خدا کی رزّاقی کا تھا۔ ہاتھ پاؤں میں یہ طاقت تھی کہ ہزار جوان جرّار کا یکہ و تنہا مقابلہ کرتا تھا۔ قتل اور غارت پر اوقات تھی۔ بہ تمنائے زر و مال بہرحال دن رات کشت و خون میں اوقات بسر ہوتی تھی۔ نفع دنیا میں عقبیٰ کا ضرر تھا۔ مجھ کو کچھ خبر نہ ہوتی تھی۔ اتفاقاتِ زمانہ ایک پری پیکر نوجوان با لباس پُر زر، سترہ اٹھارہ برس کا سن، شباب کے دن، برق دم گھوڑا، طلائی مرصع کار ساز ویراق، ہتھیار کی قسم سے فقط قرولی کمر میں، خود غرقِ دریائے جواہر مگر اُس غزال چشم کے شیر سے بُرے تیور۔ میں تو ہزار خونخوار کا تنہا شکار کرتا تھا، وہ جو نمود ہوا تو نظر میں حلوائے بے دود ہوا۔ نرم آواز سے مَیں نے کہا یہ سب ساز و سامان اے نادان یہاں رکھ دے اور گھر کو سیدھا پھر جا۔ تیرے حال پر رحم آتا ہے، اس صورت کے انسان کو کون ستاتا ہے۔ اسے نہ خوف ہوا نہ ہراس ہوا، نہ مجھ سے ایذا پہنچنے کا وسواس ہوا۔ بکشادہ پیشانی میرے پاس آ کے جواب دیا کہ اے شخص تو بھی بشر ہے، بندۂ خدا ہے مگر یہ کام جو تو نے اختیار کیا ہے اس میں شر ہے، بہت بُرا ہے۔ درِ توبہ باز ہے، آقا بندہ نواز ہے۔ اس فعل لغو سے منفعل ہو، توبہ کر۔ میرے خیال سے درگذر کہ میں ستم رسیدہ یکہ و تنہا جریدہ ہوں، مُورِدِ رنج و محن غریب الوطن، یار و دیار سے جدا، اللہ اعلم ہے کس مصیبت میں مبتلا ہوں۔ا ور جو تجھ کو اپنے زور و طاقت کا گھمنڈ ہے تو بیجا ہے کہ ہر فرعون کے واسطے ایک موسیٰ خلق میں خلق ہوا ہے۔

مجھ کو اس کے کلام پر ہنسی آئی۔ ترش رو ہو کے اُس سے کہا: صاحبزادے! ملک الموت سے درشت کلام کرتا ہے، کوئی ایسا کام کرتا ہے۔ مصلحت یہی ہے کہ اسباب اور گھوڑا مجھے دے، پیادہ پا اپنی راہ لے۔ کیوں بے گور و کفن طعمۂ زاغ و زغن ہوتا ہے، جان سی چیز جنگل میں کھوتا ہے۔ یہ بات سن کر اس نے تیور بدلے، کہا: اے مردک! کیا جھک مارتا ہے، شیخی بگھارتا ہے۔ انکار قدرت خدا کرتا ہے، دیکھوں تو میرا کیا کرتا ہے۔ پھر تو بموجب مثل کمزور پر غصہ جلد آتا ہے، نزلہ برضعیف مے ریزد، میں نے کمان کا حلقہ کاندھے سے اتارا اور یہ سوچا دو چار تیر بے تاخیر بچا کے اس کو لگاؤ کہ ڈر جائے، مال اسباب یہاں دھر جائے۔ میں نے کمان کھینچی، اس نے قرولی جو تیر قریب آیا بوضع دلکش کاٹا۔ قصہ مختصر سارا ترکش کاٹا۔ پھر تو میں جھلایا، تلوار کھینچ کے اس کے برابر آیا۔ خبردار کہہ کے وار کیا۔ اس نے چالاکی سے عجب کار کیا کہ وہی قرولی قبضے میں ڈال کر جھٹکا جو دیا، تلوار نے ہاتھ سے نکل کے میدان کا رستہ لیا اور دفعۃً بایاں ہاتھ بڑھا کے میری گردن پکڑی۔ گویا ملک الموت کے پنجے میں آئی۔ دم گھٹنے لگا، گلے کا فشار ہوا۔ یقین ہوگیا کہ انگوٹھا اس کا حلق اور گردن میں دوسار ہوا۔ مجھ کو غش آ گیا۔ دو گھڑی کے بعد جو آنکھ کھلی، دیکھا سرنگوں باگ ڈور سے بندھا درخت میں لٹکتا ہوں۔ اس کو جو پاس پایا، آپ کو بدحواس پایا۔ ڈر کے مارے زار و نالے کرنے لگا۔ اپنا عجز اس فعل قبیح کا انکار، اس پر حالی کرنے لگا۔ جس دم قسمیں زبان پر لایا، اس جرار کو رحم آیا۔ فوراً مجھ کو درخت سے کھول دیا اور میرے ہتھیار اس اشجع روزگار نے مجھ کو دے کے قریب بلایا، فرمایا: خبردار! جس بات کا تو انکار کرتا ہے، اس کام کو زینہار نہ کرنا۔ قزاقی کے قصد پر اس دشت میں قدم نہ دھرنا۔ جو روزی کی فکر ہو تو پروردگار صادق الاقرار ہے۔ اس نے فرمایا ہے، قرآن مجید میں آیا ہے وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ رِزْقُهَااور رسول الثقلین لو کان تحت الجبلین فرماتے ہیں، بشر اپنی حماقت سے گھبراتے ہیں۔ خالق بہر کیف اپنے بندے کو روزی پہنچاتا ہے۔ بھوکا اٹھاتا ہے، پیٹ بھر کے سُلاتا ہے۔ ؏

مگر نشنیدۂ بیدل خدا داری چہ غم داری


؂

جب دانت نہ تھے تب دودھ دیو

اب دانت بھئے کا اَن نہ دیہے


یہ فرما کے وہ تو چل نکلا۔ مجھ کو تمام دن حیرت رہی۔ وہ ذلت و خواری جو مجھ پر گذری تھی، اس کی غیرت رہی۔ تمام رات نیند نہ آئی۔ صبح کو وہ مال اسباب جو حرام کا جمع کیا تھا، اس کو لٹا کے ایک سمت چلا اور دل میں یہ عزم بالجزم ہوا کہ اگر اکل حلال بہ مشقت کمال میسر ہوا تو کھاؤں گا، ورنہ فاقے کر کے مر جاؤں گا۔ انسان تو سست اساس ہے، بہت بدحواس ہے۔ یہ خیال آیا کہ اب دیکھیے کیوں کر آب و دانہ ملتا ہے، اس دشت پُرخار میں کیا گل کھلتا ہے۔ چلتے چلتے جب تھکا، ایک درخت سایہ دار دیکھ کے بیٹھا۔ بسکہ وہ خوش قطع تھا، بغور اس کو دیکھنے لگا۔ عجب ماجرا نظر آیا۔ ایک کوا بے پر و بال بُرا حال اس کے کول میں گردن باہر نکالے پڑا تھا۔ مجھ کو پھر وہی خیال آیا کہ اس کے دانے اور پانی کی زندگانی کی صورت کیوں کر ہوتی ہوگی۔ یہ تو درخت سے نیچے آتا نہ ہوگا، کچھ پیتا کھاتا نہ ہوگا۔ ابھی یہ وسوسہ دور نہ ہوا تھا کہ ایک باز تیز پرواز جانور پنجے میں دبائے ٹہنی پر آ بیٹھا۔ وہ جو شکار لایا تھا، پنجے میں جسے دبایا تھا، اس کا گوشت نوچ نوچ کے کچھ کھانے لگا کچھ گرانے لگا۔ غور جو کرتا ہوں تو کیا دیکھا جو کچھ باز گراتا ہے وہ کوے کے مُنہ میں آتا ہے، بے تکلف کھاتا ہے۔ جب کوا سیر ہوا، گردن کو اندر کھینچا۔ باز اُڑ گیا، مجھ پر عجب حال طاری ہوا۔ بارے قائل قدرت باری ہوا۔ دل سے کہا جل جلالہ۔ یہ جو سنتے تھے، درست ہے ؂

بے مگس روزی نماند عنکبوت

رزق را روزی رساں پر میدہد


جو تقدیر میں ہے اُڑ کے اس طرح آتا ہے، بے ہاتھ پاؤں ہلائے حلق میں اتر جاتا ہے۔ اسی دن اس پہاڑ پر پھرتا پھرتا آ نکلا۔ یہاں کی بہار، جابجا چشمہ ہائے سرد و شیریں خوشگوار، گل بوٹے کی دید، مجمع خلق سے بعید تنہائی بہت پسند آئی۔ یہ مصرع پڑھ کر بیٹھ رہا ؏

اوقات مکن ضائع و تنہا بنشین


از روئے حساب بہر حال چالیس سال گذر گئے، دَد و دام سے صحبت رہتی ہے، جانوروں کی طرف رغبت رہتی ہے۔ جس لذیذ طعام پر خواہش ہوتی ہے، سرِ شام رازق مطلق اس مقام پر بھیج دیتا ہے۔ نہ جستجو کرتا ہوں نہ کاہش ہوتی ہے۔ سیر ہو کے کھاتا ہوں، ولی نعمت کا سجدۂ شکر بجا لاتا ہوں۔ بعد نماز عشا صدا کان میں آئی تھی، ہاتف نے تیرے آنے کی خبر سنائی تھی کہ آذر شاہ بحال تباہ فرزند کی حسرت میں اس پہاڑ پر آئے گا اور مایوس ہو کے مر جانے کا خیال دل میں لائے گا، تو اس کو منع کرنا، سمجھانا، لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّـهِ پڑھ کر سنانا، کہہ دینا کہ اپنے ملک کو پھر جا اور خاقانِ چین سے اس کی بیٹی کا پیام دے۔ عجب وہ یاسمین پیکر گل اندام ہے، سمن رخ اس مہر جبین کا نام ہے۔ نمونۂ کلک قدرت صانع نادر نگار ہے، یکتائے روزگار ہے۔ جب اس کے ساتھ تیری شادی ہوگی، نخل تمنا بار لائے گا۔ خانہ آبادی ہوگی۔ لیکن تیری پہلی عورت جو زلالہ ہے وہ سخت دلّالہ ہے، اس پر سحر کرے گی۔ چندے اس کو جنون ہو جائے گا، حال زار زبون ہو جائے گا۔ مگر بدعائے درویش وہ دلریش نجات پائے گی، تیری مراد بر آئے گی۔ یہ کلمہ کہہ کے وہ تو ایک سمت رواں ہوا، آنکھوں سے نہاں ہوا۔ آذر شاہ بہت شاد ہوا، بندِ فکر سے آزاد ہوا۔ دل میں سوچا کہ دن زیادہ آیا، واللہ اعلم شہر کتنی دور ہے۔ بندہ پیادہ راہ چلنے سے معذور ہے۔ یہ تو اس خیال میں لب چشمہ حیران تھا، ہر طرف نگران تھا۔

اب دو فقرے ان کے ملازمان خاص کے سینے کہ دم سحر بصد کر و فر وزیر، امیر، ارکان سلطنت، ترقی خواہانِ دولت در دیوان خاص پر حاضر ہوئے۔ یہاں سناٹا نظر آیا، ہر ایک کو بحال یاس سراسیمہ و بدحواس پایا۔ معلوم ہوا کہ شب کو شاہ کیوان جاہ کسی سمت راہی ہوا۔ زمانہ سب کی نظر میں سیاہ ہوگیا، ہر شخص کا حال تباہ ہوگیا۔ وزیر صائب تدبیر نے پہلے تو شہر کا بند و بست کیا، کوتوال کو حکم نگہبانی ہوا، وہ مصروف جانفشانی ہوا۔ سب نے با دلِ درد مند شہر کے دروازے بند کیے۔ فرمایا کہ بجز مسافر کوئی اندر آنے نہ پائے، شہر سے جانے نہ پائے۔ پھر اپنا سر اور منہ آغشتہ بہ خاک کیا، تا دامن گریبان چاک کیا۔ کچھ سوار جرار تھوڑے سے پیادے ہمراہ لے کے بہ تلاش شاہ گم گشتہ وہ جگر برشتہ شہر سے باہر نکلا۔ جا بجا خاک اُڑاتا پتا لگاتا چلا۔ قضائے کار اتفاقات روزگار اسی پہاڑ کے قریب پہنچا۔ دل میں آیا اس کے اوپر چلو، کیا عجب ہے کہ اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آئے، بادشاہ یہیں مل جائے۔ القصہ بجد و کد پہاڑ پر چڑھا۔ دور سے بادشاہ اسی چشمہ پر نظر پڑا۔ تشنۂ دیدار نے غریق بحر ذخار نے ساحل کامیابی پایا۔ دوڑ کر لپٹ گیا۔ رونے لگا، داغ مہاجرت دھونے لگا۔ الغرض شوکت و شان، ساز و سامان سے بادشاہ کو لے کے شہر میں داخل ہوا۔ جس مطلب کا جویا تھا حاصل ہوا۔ جان نثاروں نے نذریں دیں، خلعت و انعام پائے۔ خوش و خرم اپنے اپنے گھر آئے۔ شاہ ذی جاہ امور سلطنت میں موافق معمول مشغول تو ہوا مگر ہر دم فراق سمن رخ میں انتظام شہر کا بھولا، یہ تازہ شگوفہ پھولا۔ گل رخسار کی بہار پر خزاں چھائی، زعفران زار کی کیفیت نظر آئی۔ نخلِ محبت نے سینہ میں لگاؤ کیا۔ الفت کے کانٹے نے جگر میں کھٹک کی، کلیجے میں گھاؤ کیا۔ نہ گل و گلزار کی سیر سے رغبت رہی، نہ معاملات سے کچھ کام رہا۔ نہ گانا سُنا، نہ ناچ دیکھا۔ نہ شُربِ بادہ علی الدوام رہا، جو کہیں کھڑا ہوگیا تو بت کی طرح کھڑا رہا۔ جو پلنگ پر گر پڑا تو بہ خدا گھڑیوں پڑا رہا۔ لب خشک، آنکھیں پرنم ہوئیں۔ اندوہ کی کثرت، خوشی کی صحبتیں برہم ہوئیں ؂

کہا گر کسی نے کہ کچھ کھائیے

تو کہنا کہ بہتر ہے منگوائیے


کسی کی تلاش میں خود رفتہ ہو، حیرت زدہ ہر طرف نگاہ کرنے لگا۔ سوزشِ دل کی دم سرد نے تسکین کی۔ جی گھبرایا تو آہ آہ کرنے لگا۔ ہوش و حواس سر سے یکسر سرکے۔ عقل اور عشق میں لڑائی ہونے لگی۔ متاع صبر و خرد لُٹ گئی۔ عنانِ ضبط ہاتھ سے چُھٹ گئی۔ مملکت جسم کی تباہی ہونے لگی۔ دست جنوں تا گریباں پہنچا،جیب کا چاک سرِ داماں پہنچا۔ بھوک پیاس پاس نہ آئی۔ غم کھا کے آنسو پینا اختیار کیا۔ فرقت جاناں میں مر مر کے جینا اختیار کیا۔ جنگل سے رغبت ہوئی۔ بستی اجاڑ معلوم ہونے لگی۔ تنہائی کا دن تڑپ کے کاٹا۔ فرقت کی رات پہاڑ معلوم ہونے لگی۔ دربار میں آیا تو مجمع سے گھبرانے لگا۔ اکیلا ہوا تو سر پٹک کے پچھاڑیں کھانے لگا۔ صبح سے تا شام آہ و زاری کی۔ شام سے صبح تک تارے گنے۔ بے قراری کے دن کو گلزار میں اگر گذر ہوا، گل و بلبل کی صحبت کا خار ہوا۔ رات کا جلسہ مد نظر ٹھہرا تو شمع پروانے کی گرم جوشی دیکھ کے بخار ہوا۔ الغرض جب خلاف مقدموں کو طول ہوا تو سلطنت کی بربادی سے ہر ایک جان نثار نمک خوار ملول ہوا۔ زمانۂ سابق میں اس قدر لوگ بدنام نہ تھے، نرے خود کام نہ تھے۔ باہم سب نے جمع ہو کے بصد پریشانی عقل و دور اندیش سے کام لیا۔ ذہن جو لگایا تو بالاتفاق طبیعت کا میلان کسی جانب ٹھہرایا ؂

مُنہ پر اس کے جو رنگ خون نہیں

عشق ہے صاف یہ جنون نہیں


ایک روز سر پاؤں پر دھر بجرأت تمامتر وزیر اعظم عرض پیرا ہوا کہ ہم لوگ خانہ زاد ہیں، جان نثار ہیں، جس جا حضرت کا پسینہ گرے اپنا لہو بہانے کو تیار ہیں۔ لیکن کچھ ایما اشارہ اگر پائیں، جان جوکھوں کر کے خدمت بجا لائیں، ورنہ ہم سب اپنا سر زیر قدم فدا کریں گے، اور تو کیا کریں گے۔ اس وقت چار و ناچار بجز اظہار حال آذر شاہ کو چارہ نہ ہوا، ذکر چھڑ جو گیا ضبط کا یارہ نہ ہوا۔ ابتدا سے انتہا تک پہاڑ پر جانا ملاقات کا ہونا جو حقیقت گذری تھی وہ سب کہہ سنائی۔ پھر فرمایا کہ بے وصل سمن رخ اپنا وصال ہے، فرقت میں جینا محال ہے۔ جب سرگذشت بادشاہ کی سُن لی، متفق اللفظ سب نے عرض کی کہ پیر و مرشد جو بادشاہ ہے، درِ دولت کا گدا ہے اور جس جا جو حاکم ہے وہ حضرت کا محکوم ہے۔ چار دانگ میں اس سلطنت کا شہرہ ہے۔ صولت و سطوت کی دھوم ہے۔ کس کی مجال ہے جو نافرمانی کرے، تلخ چار دن کی زندگانی کرے۔ وزیر اعظم کی صلاح ہوئی کہ غلام پہلے ایلچی کے ہاتھ نامہ روانہ کرتا ہے، دیکھیے تو وہ راضی ہوتا ہے یا کوئی بہانہ کرتا ہے۔ اس کے بعد جو مصلحت وقت ہوگی وہ بات کریں گے۔ جو صلح میں مطلب بر آیا تو خیر نہیں شر ہوگا، لڑیں گے۔ پیر و مرشد خاطر مبارک بہر کیف جمع فرمائیں جس کام میں دل لگے، جی بہلائیں۔ ان شاء اللہ المستعان بفضل یزدان قریب تر حسب دلخواہ یہ امر ظہور میں آتا ہے۔ خدا نے چاہا تو پیک خوش قدم شادی کا پیام ادھر سے لاتا ہے۔ یہ رائے بادشاہ نے بہت پسند کر کے ذہن کی رسائی پر تحسین و آفرین فرمائی اور وہ جو تڑپ دل میں، بے قراری آب و گل میں تھی اس سے نجات پائی۔ پھر منشی بے نظیر جادو تحریر کو یاد فرمایا۔ اس نے نیزۂ واسطی ہاتھ میں اٹھا کے سمندِ طبع کو صفحۂ قرطاس پر مہمیز اور تازیانۂ فکر کے چھپکے سے توسنِ ذہنِ رسا کی دور دمی دکھا کے زبانِ خامہ کو حمد و نعت میں گہر ریز کیا۔