Jump to content

شگوفہ محبت/آوارہ ہونا باغ سے

From Wikisource

آوارہ ہونا باغ سے با دِل پُر داغ شاہزادہ کا کبوتر بن کے اور باز کے پنجے سے چاہ کی بدولت کنویں میں گرنا، ساحروں کا آدمی بنانا، کنویں سے نکل کے پھر باغ میں جانا، پری زاد کا ہرن بنانا


مورخانِ تاریخ دان حال اس نوجوان کا یہ لکھتے ہیں کہ شاہزادہ کبوتر جب بنا تو اُس باغ سے اڑا، راہ میں کبھی شکایت بختِ نارسا،گاہ آسمان کا گِلا دل میں آتا تھا۔ الّا خاموش اُس صحرائے قیامت میں اڑا جاتا تھا۔ دو روز خراب خستہ وہ بے بال پر شکستہ بتلاش آب و دانہ، گم کردہ آشیانہ تباہ رہا۔ تیسرے دن جس دم مرغ زریں بال بصد شوکت و جلال قفس مشرق سے نکل کر سبزہ زار فلک پر جلوہ گر ہوا، صحرائے بے خار سراپا بہار میں کبوتر کا گذر ہوا۔ اس نے خیال کیا کہ تیسرا دن ہے حرام تک حلال ہے، بھوک کی شدت سے غیر حال ہے۔ اگر کہیں دانہ پانی میسر ہو تو جان بچ جائے، موت سے مفر ہو۔ دفعۃً پانی کا چشمہ نظر آیا، یہ اس جگہ ٹھہرا، دم لیا۔ پانی ڈگڈکا کے پیا۔ ابھی اس احمق نے دانہ زمین سے نہ اٹھایا تھا، پانی کے سوا کچھ نہ کھایا تھا، فلک کو اس جفا پر قرار نہ آیا، موت کا سامان دکھایا، کسی شہر کا تاجدار بہ ہوائے سیر تمنائے شکار گھوڑا اڑائے فوج لشکر سے جدا یکہ و تنہا باز تیز پرواز ہاتھ پر بٹھائے سامنے سے چلا آتاتھا۔ اس کی روح دیکھتے ہی قالب سے نکل گئی۔ سکتہ سا ہوگیا۔ حس و حرکت کی طاقت نہ رہی۔ جس دم قریب تر اس کے سر پر پہنچا، یہ بے پر مجبور بخوف جان با خاطرِ پریشان اڑا۔ بادشاہ نے شکار جو مد نظر کیا۔ باز کو سر کیا، ہر چند اس نے ڈر کے مارے بہت تیز کندوں کو جوڑا، باز اس کی گرفتاری سے باز نہ رہا، پیچھا نہ چھوڑا۔ یہ لیاوہ لیاایسا تعاقب کیا۔ آخرکار کنویں کی جگت پر کبوتر کو دبوچا۔ باہم کشمکش ہونے لگی، خوب نوچا۔ یہ تو انسان گو بظاہر کبوتر کا عالم تھا، وہ جانور زور اور طاقت میں بہت کم تھا۔ جب تک بادشاہ اس کے قریب آئے، یہ اس کے پنچے سے چُھٹ کر کنویں میں گر پڑا۔ باز نے تو باؤلی پائی تھی، سونے کی چڑیا ہاتھ آئی تھی، جگت پر بیٹھ رہا۔ بادشاہ نے طعمہ دکھا باز کو ہاتھ پر بلایا۔ صید کو جو ڈھونڈھا، کہیں نہ پایا۔ وہ تو پھر جنگل کی طرف روانہ ہوا۔ کبوتر کا اسی چاہ میں آشیانہ ہوا۔ جان کے خوف سے تا شام وہ ناکام باہر نہ آیا۔ وہ دن میں بھی فاقہ میں گنوایا۔ دمِ سحر جب یوسف چرخ چارم چاہ مشرق سے نکلا، دو ساحر بوضع مسافر اسی کنویں کے اوپر آئے۔ پانی کی چاہ کی، کنویں کے اندر نگاہ کی۔ دونوں نے دیکھا کہ ایک کبوتر لہو میں تر پانی کے قریب پتھر پر بیٹھا ہے۔ ایک بولا: یہ عجب طرح کا کبوتر ہے، کتنا پریشان ہے۔ دوسرا رسی اور ڈول اٹھا جلدی سے بول اٹھا کہ یہ جانور نہیں مبتلائے سحر انسان ہے۔ پھر رسی میں لکڑی باندھ کے کنویں میں لٹکائی، کہا اگر تو بشر ہے اس پر بیٹھ کر باہر آ۔ ہم تیرے درد کا درماں کریں گے۔ پھر تجھ کو انسان کریں گے۔ یہ کلمہ سن کے فی الفور ڈانواں ڈول لکڑی پر بیٹھ گیا۔ انھوں نے کھینچ لیا۔ کبوتر نے باہر نکل کے عجز سے سر کو جھکایا۔ ساحروں کو خوف خدا آیا۔ بڑی مشقت اور جانکاہی سے اس ہیئت واہی سے اصلی صورت پر لائے۔ سرگذشت جو اس کی پوچھی، اس نے کیفیت باغ کے جانے کی، پری زاد پر طبیعت آنے کی ابتدا سے انتہا تک بیان کی۔ ساحر کہنے لگے اب ایسی حرکت بیجا زینہار نہ کرنا، دہن اژدر میں پاؤں نہ دھرنا، ورنہ تازیست خدا جانے کس صورت میں خراب رہے گا، سخت عذاب رہے گا۔ شہزادہ نے بعد شکر رہائی کہا: ہرگز ہرگز ادھر کا دھیان کسی عنوان نہ لاؤں گا، اپنے وطن کو بہر کیف پھر جاؤں گا۔ وہ دونوں تو جدھر کے عازم تھے اس طرف راہی ہوئے، یہ خانہ خرابی کا جویا پھر باغ کی سمت چل نکلا۔ فرقت سے حال اس کا تباہ تھا، بے سامانی کا سامان ہمراہ تھا۔ حسرت و یاس کا ہجوم، بے تابیوں کی دھوم، فوج کے بدلے سپاہ رنج و الم، قشوں کے قشوں اندوہ و غم، دل کے قلق و اضطراب نے ہوا کے گھوڑے پر سوار کیا۔ شوق دیدار نے شتر بے مہار کیا۔ چشم پرنم مہتمم آبپاشی، وحشت دل آمادۂ دور باشی، فغاں کے نقیبوں کی صدا بلند، سینہ مجمر، دل و جگر عود و سپند، جنون دھونس دے کے ڈنکا بجاتا، کوس حرمان کا کوسوں آوازہ جاتا، مجنوں کی روح دشت و بر میں ہمراہ، پہاڑوں میں کوہ کن کی پناہ، علم آہ کا جس طرف رُخ مُڑتا دل کے داغ کا ادھر پھریرا اڑتا۔ ناشتہ کا وقت جب آتا، فاقہ دسترخوان بچھاتا، محکمہ ناکامی سر رشتہ ناداری کے کار پرداز طلب غذا کی صدا جو سنتے، عجیب و غریب نعمتیں ہوا پر چنتے۔ باورچی یاس کے نیم برشتہ لختِ جگر سیخِ آہ ہر چڑھاتے، کوفت کے کوفتے گرما گرم دکھاتے۔ میسر تو دال نہ دلیا ہوتا، عقلیہ یہ ہے کہ دل اور کلیجے کا قلیا ہوتا۔ حضرت عشق سا کاریگر کہاں ملتا ہے کہ جب بے ہانڈی چولہے کی شیخی بگھار ڈیرھ چانول دم دیتا ہے، لاکھ لاکھ طرح کا مزہ فقط درد و غم دیتا ہے۔ سات دن یہ غذا اگر روئیں تن کھائے، موم کی طرح بہ جاوے۔

دن کے کوچ کا یہ حال پوچ تھا اور ات کے مقام کا جو انتظام ہوتا تھا تو منزلوں راحت سے دور، کوسوں آرام سے جدا قیام ہوتا تھا۔ خیمہ بے چوبہ، زنگاری رنگ، سائر کی قنات، صحرائے ہولناک جس سے عافیت تنگ، خانہ بے دیوار و در وحشت کا گھر، فرش سراسر زمردی، خود رو گلکاری، بالش پر کے بدلے خشت زیر سر۔ ا س پر دم شماری سونے کے وقت چونک چونک اٹھنا، تمام شب کی بیداری، حسرت و یاس در بر، پہلو میں کنکر پتھر، کروٹ بدل کے ادھر ادھر جس دم نگاہ کی، سناٹا نظر آیا۔ دم سرد بھر کے آہ کی۔

ان خرابیوں سے ہزار بے تابیوں سے کئی مہینے کے بعد بصد آزار باغ کی دیوار نظر آئی۔ وحشت حرارہ لائی۔ بے اختیار ہو کے دوڑا ۔ دروازے کے قریب وہ بلا نصیب جب آیا، انسان نہ حیوان، سنسان پایا۔ اندر قدم بڑھایا۔ چمن کے تختے میں اس گلبدن کو محوِ تماشا دیکھ کر گرد پریوں کا پرا دیکھا۔ ناگاہ ایک خواص کی نگاہ اس پر پڑ گئی، آنکھ لڑ گئی۔ اس نے گھبرا کے شہزادی سے عرض کی کہ وہ ہی مرگ کا آمادہ یعنی شہزادہ پھر آیا۔ پری زاد متحیر اسے دیکھنےلگی۔ یہاں تاب کہاں، نزدیک جا کے بے تابانہ مانند پروانہ اس شمع کاشانہ افروز کے گرد پھرنے لگا۔ صعوبت راہ سے گردش شام و پگاہ سے حال باقی نہ تھا۔ دوران ہوا لڑکھڑا کر گرنے لگا۔ پری زاد نے ہاتھ پکڑ لیا، سنبھالا۔ شہزادہ نے کہا: اس کی شرم آپ کے ہاتھ ہے۔ وہ ہنس کے بولی یہ کیا بات ہے۔ جب گذشتہ خطا کا عذر کیا تو اس نے کہا: تیری ایذا اٹھانے سے تکلیف پانے سے مجھ کو خوف خدا ہوا۔ یہ جو مصیبت تجھ پر گذری، تیرے قصور سے میں در گذری۔ آنے سے طبیعت مسرور ہوئی، خفگی گئی، کدورت دور ہوئی۔ آئندہ احتیاط شرط ہے۔ حوصلے سے زیادہ قدم نہ بڑھانا، پھر منہ کی نہ کھانا۔ اس کے بعد ہمراہ لے کے دم دے کے بارہ دری میں آئی۔ بے حجابی کی دوا منگائی۔ وہ جو خدمت گزاریں شکر لب شیریں بیان تھیں، اکل و شرب کا سامان لے کے موجود ہوئیں۔ شراب ناب کا جام چل نکلا۔ ناچ گانے کا غلغلہ فلک پر پہنچا۔ بھوکے پیاسے نے زندگی سے نراسے نے کچھ پیا، کچھ کھایا۔ دماغ کی کیفیت بدل گئی۔ بادۂ گلگوں کا نشہ رنگ لایا۔ مصیبت کی باتوں کا ہجر کی خوفناک راتوں کا ذکر ہونے لگا۔ اپنی خانہ خرابی پر شاہزادہ رونے لگا۔ پری زاد ہاتھ پکڑ کر پلنگ پر لے گئی۔ دونوں لیٹے، اختلاط شروع ہوا۔ جلیس مزاج دان جتنی بیٹھی تھیں، وہ اپنے اپنے مقاموں پر اٹھ گئیں۔ یہاں عالم تنہائی، نشہ کی کیفیت، ولولۂ طبیعت نے ایذائے گذشتہ شاہزادہ کو بُھلائی، تازہ مصیبت استقبال کو آئی۔ اگلی حرکتیں کرنے لگا۔ بربادی کے وادی میں قدم دھرنے لگا۔ پری زاد نے کہا: تم پھر مزے میں آ گئے، اتنا جلد گھبرا گئے۔ سنبھل جاؤ، بیہودہ ہاتھ نہ بڑھاؤ۔ اب کی بار کہیں ٹھکانا نہ ملے گا۔ یاد رکھو آب و دانہ نہ ملے گا۔ یہاں آنکھوں پر پردے پڑے تھے، شیطان صاحب سر پر کھڑے تھے۔ پری نے ہر چند ٹالا، یہاں کیا پروا تھی۔ ازار بند پر ہاتھ ڈالا۔ نہایت بدمزہ ہو کے وہ کچھ بڑبڑائی، پکار کر یہ کلمہ زبان پرلائی کہ اے حامل رنج و محن بن جا ہرن۔ شہزادہ پلنگ سے گر کر غزال خوش جمال ہوگیا۔ شہوت کا نشہ ہرن ہوا، سکتے کا حال ہوگیا۔ پری زاد نے خواص سے کہا: اس وحشی کو باغ سے باہر نکال دے، بلا کو ٹال دے۔ اس نے بموجب فرمان اُسی آن گلزار ہمیشہ بہار کے دروازے سے دور لے جا کے چھوڑا، رشتۂ امید اس کا توڑا۔ اس نے ہزار آہ آہ کی، اس نے مطلق اس کے حال پر نہ نگاہ کی۔