شگفتہ ہوتے ہی مرجھا گئی کلی افسوس

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شگفتہ ہوتے ہی مرجھا گئی کلی افسوس
by شاد لکھنوی

شگفتہ ہوتے ہی مرجھا گئی کلی افسوس
بہار باغ ادھر آئی ادھر گئی افسوس

کہ تم اخیر بھی کہنے نہ حال دل پائے
زبان بند ہوئی بات کرتے ہی افسوس

اسی بہانے سے منہ دیکھتے حسینوں کا
صفائے دل نہ ہوئی اپنی آرسی افسوس

حضور قیس پہن کر جنوں میں کیا جائیں
قباے تن ہے سراپا نچی کھچی افسوس

وبال دوش رہا سر بھی ناتوانی سے
ملا نہ کوئی ہمیں تیغ کا دھنی افسوس

نظر سے گر کے یہ دل غم ہوا کہیں نہ ملا
جنوں میں خاک بھی چھانی گلی گلی افسوس

وہ کشتنی ہیں جو ماہی کا بھیس بھی بدلا
حلال ہو گئے مچھلی سے بھی چھری افسوس

مزار قیس پہ آئی نہ ایک لیلہ کیا
کسی نے بات نہ پوچھی غریب کی افسوس

برہنگی کا تو مرنے پہ غم نہیں لیکن
کفن کھسوٹ سے شرمندگی ہوئی افسوس

خزاں کے ہاتھ سے رونے کی جا ہے خندۂ گل
بسورتی ہے یہ ہنستی نہیں کلی افسوس

کسے سنائیں یہ ہم ریختہ زباں اے شادؔ
جناب میرؔ نہ مرزاؔ نہ مصحفیؔ افسوس

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse