شگفتہ اپنا دل داغدار رہتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شگفتہ اپنا دل داغدار رہتا ہے  (1933) 
by منشی ٹھاکر پرساد طالب

شگفتہ اپنا دل داغدار رہتا ہے
یہاں خزاں میں بھی لطف بہار رہتا ہے

تصور رخ و گیسوئے یار رہتا ہے
یہاں خیال یہ لیل و نہار رہتا ہے

تمہاری تیغ نگہ تیز کیوں ہے عاشق پر
یہ صید آپ ہی ہر دم شکار رہتا ہے

سیاہ پوشیٔ پیر فلک ہے راز عجیب
غم اس کو کس کا ہے کیوں سوگوار رہتا ہے

کیا ہے آنکھوں میں جس دن سے لخت دل نے مقام
ہمارے پیش نظر لالہ زار رہتا ہے

خدا بچاتا ہے بس ورنہ عاشق مہجور
اجل سے آٹھ پہر ہمکنار رہتا ہے

جسے کہ گردش گردوں نے پیس ڈالا ہو
زمیں سے کب اسے خوف فشار رہتا ہے

گناہ گار ہوں طالبؔ اسی سبب ہر دم
خیال آمد روز شمار رہتا ہے

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse