شکوہ نہ رقیبوں سے نہ جاناں سے گلا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شکوہ نہ رقیبوں سے نہ جاناں سے گلا ہے
by امداد علی بحر

شکوہ نہ رقیبوں سے نہ جاناں سے گلا ہے
مجھ کو فقط اپنی دل ناداں سے گلا ہے

یوں خاک بسر مجھ کو نہ کرنا تھا جہاں میں
اے یار تری زلف پریشاں سے گلا ہے

بیمار محبت کی عیادت کو نہ آئے
کیا ہجر دوا تھا مجھے درماں سے گلا ہے

آنسو جو نہ بہتے تو میں آنکھوں سے نہ گرتا
مجھ کو بہت اس دیدۂ گریاں سے گلا ہے

دم بھر نہیں لگتی ہے پلک سے پلک اپنی
گنواتی ہے تارے شب ہجراں سے گلا ہے

آئے بھی تو کھائے نہ گلوری نہ ملا عطر
روکی مری دعوت مجھے مہماں سے گلا ہے

بخیے کی ہوس رہ گئی افگار دلوں کو
ہر زخم کو اس سوزن مژگاں سے گلا ہے

گل بو نہ کبھی لائے شکایت ہے صبا ہے
بھیجا نہ کوئی پھول گلستاں سے گلا ہے

نغمے نہ سنائے کبھی احباب قفس کو
گلزار کے مرغان خوش الحاں سے گلا ہے

رہنے کو ٹھکانا نہیں ملتا کہیں اس کو
مجنوں کو ترے گوشۂ زنداں سے گلا ہے

سویا نہ کبھی چاندنی میں ساتھ ہمارے
ہم کو یہی اس ماہ درخشاں سے گلا ہے

روکا مجھے اغیار کو جانے دیا گھر میں
شکوہ سگ جاناں سے ہے درباں سے گلہ ہے

اس سے ہوئی فرقت نہ ہوئی ان میں جدائی
اے بحرؔ مجھے اپنے تن و جاں سے گلا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse