شکوہ نہیں کسی کی ملاقات کا مجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شکوہ نہیں کسی کی ملاقات کا مجھے
by داغ دہلوی

شکوہ نہیں کسی کی ملاقات کا مجھے
تم جانتے ہو وہم ہے جس بات کا مجھے

جانا کہ بوئے غیر یہ پہچان جائے گا
باسی نہ اس نے ہار دیا رات کا مجھے

مل کر تمام بھید کہوں گا رقیب سے
آتا ہے خوب توڑ تری گھات کا مجھے

ڈرنا کسی کا اور وہ بجلی کا کوندنا
موسم بہت پسند ہے برسات کا مجھے

آخر وہاں رقیب نے نقشہ جما لیا
اے داغؔ خوف تھا اسی بد ذات کا مجھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse