شکوہ سن کر جو مزاج بت بد خو بدلا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شکوہ سن کر جو مزاج بت بد خو بدلا
by بیخود بدایونی

شکوہ سن کر جو مزاج بت بد خو بدلا
ہم نے بھی ساتھ ہی تقریر کا پہلو بدلا

کہئے تو کس کے پھنسانے کی یہ تدبیریں ہیں
آج کیوں چیں بہ جبیں سے خم گیسو بدلا

اک ترا ربط کہ دو دن کبھی یکساں نہ رہا
اک مرا حال کہ ہرگز نہ سر مو بدلا

ان حسینوں ہی کو زیبا ہے تلون اے دل
ہاں خبردار جو بھولے سے کبھی تو بدلا

دل مضطر کی تڑپ سے جو میں تڑپا بیخودؔ
چارہ گر خوش ہیں کہ بیمار نے پہلو بدلا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.