شکوہ سن کر جو مزاج بت بد خو بدلا
Appearance
شکوہ سن کر جو مزاج بت بد خو بدلا
ہم نے بھی ساتھ ہی تقریر کا پہلو بدلا
کہئے تو کس کے پھنسانے کی یہ تدبیریں ہیں
آج کیوں چیں بہ جبیں سے خم گیسو بدلا
اک ترا ربط کہ دو دن کبھی یکساں نہ رہا
اک مرا حال کہ ہرگز نہ سر مو بدلا
ان حسینوں ہی کو زیبا ہے تلون اے دل
ہاں خبردار جو بھولے سے کبھی تو بدلا
دل مضطر کی تڑپ سے جو میں تڑپا بیخودؔ
چارہ گر خوش ہیں کہ بیمار نے پہلو بدلا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |