Jump to content

شکوہ جو میرا اشک میں ڈھلتا چلا گیا

From Wikisource
شکوہ جو میرا اشک میں ڈھلتا چلا گیا
by نیر سلطانپوری
323883شکوہ جو میرا اشک میں ڈھلتا چلا گیانیر سلطانپوری

شکوہ جو میرا اشک میں ڈھلتا چلا گیا
سارا غبار دل کا نکلتا چلا گیا

روشن کیا امید نے یوں جادۂ حیات
ہر گام پہ چراغ سا جلتا چلا گیا

راس آ سکی سکوں کو نا تدبیر ضبط غم
آنکھوں سے خون دل کا ابلتا چلا گیا

جس پر مرے فریب تمنا کو ناز تھا
وہ دن بھی انتظار میں ڈھلتا چلا گیا

پچھلے پہر جو شمع نے کھینچی اک آہ سرد
چہرے کا ان کے رنگ بدلتا چلا گیا

بڑھنے لگی یقین و گماں میں جو کشمکش
وعدہ بھی صبح و شام پہ ٹلتا چلا گیا

وہ نوحۂ الم ہو کہ نیرؔ نوائے شوق
ہر نغمہ ایک ساز میں ڈھلتا چلا گیا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.