شکوا ہے نہ غصہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شکوا ہے نہ غصہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
by نسیم دہلوی

شکوا ہے نہ غصہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
کیوں آپ کو دھڑکا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

چپ رہنے دو دم بھر مجھے للہ نہ چھیڑو
اب اس سے تمہیں کیا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

اس لطف زبانی کو ذرا سوچیے دل میں
یہ عذر تو بے جا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

اس لطف زبانی کو ذرا سوچیے دل میں
یہ عذر تو بے جا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

منہ میرا نہ کھلواؤ کہ ہو جائیں گے لب بند
دیکھو یہی اچھا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

ڈرتا نہیں جو دل میں ہو دشمن کے لگائے
ان پر یہ ہویدا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

کیوں رکتے ہو عادت سے ہوں مجبور وگرنہ
کچھ آپ سے پردا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

اب وہ بھی یہ سمجھا کہ یہ سمجھا میری گھاتیں
اس بات سے ڈرتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

ہر روز نئے ڈھنگ ہیں خاطر کے نسیمؔ آہ
کل سے یہی سودا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.