شکل جب بس گئی آنکھوں میں تو چھپنا کیسا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شکل جب بس گئی آنکھوں میں تو چھپنا کیسا
by شاہ اکبر داناپوری

شکل جب بس گئی آنکھوں میں تو چھپنا کیسا
دل میں گھر کر کے مری جان یہ پردا کیسا

با ادب ہیں ترے سب کشتۂ ناز اے قاتل
سانس لیں گے نہ دم ذبح تڑپنا کیسا

آپ موجود ہیں حاضر ہے یہ سامان نشاط
عذر سب طے ہیں بس اب وعدۂ فردا کیسا

تیری آنکھوں کی جو تعریف سنی ہے مجھ سے
گھورتی ہے مجھے یہ نرگس شہلا کیسا

ہاتھ بڑھتے ہیں گریباں کی طرف پاؤں نکال
المدد جوش جنوں سبز ہے صحرا کیسا

اے مسیحا یوں ہی کرتے ہیں مریضوں کا علاج
کچھ نہ پوچھا کہ ہے بیمار ہمارا کیسا

گرم بازاریٔ خورشید قیامت ہوئی سرد
حشر میں داغ محبت مرا چمکا کیسا

کیا کہا تم نے کہ ہم جاتے ہیں دل اپنا سنبھال
یہ تڑپ کر نکل آئے گا سنبھلنا کیسا

منہ دکھائے نہ خدا ہجر کی شب کا اکبرؔ
خوف اس کا ہے ہمیں حشر کا دھڑکا کیسا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse