شکست توبہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شکست توبہ
by جگر مراد آبادی

ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا
لہروں سے کھیلتا ہوا لہرا کے پی گیا

بے کیفیوں کے کیف سے گھبرا کے پی گیا
توبہ کو توڑ تاڑ کے تھرا کے پی گیا

زاہد! یہ تیری شوخئ رندانہ دیکھنا
رحمت کو باتوں باتوں میں بہلا کے پی گیا

سر مستئ ازل مجھے جب یاد آ گئی
دنیائے اعتبار کو ٹھکرا کے پی گیا

آزردگئ خاطر ساقی کو دیکھ کر
مجھ کو یہ شرم آئی کہ شرما کے پی گیا

اے رحمت تمام مری ہر خطا معاف
میں انتہائے شوق میں گھبرا کے پی گیا

پیتا بغیر اذن یہ کب تھی مری مجال
در پردہ چشم یار کی شہ پا کے پی گیا

اس جان مے کدہ کی قسم بارہا جگرؔ
کل عالم بسیط پہ میں چھا کے پی گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse